1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنی مسلمانوں کے قتلِ عام کی 14 ویں برسی

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی/ ادارت: مقبول ملک11 جولائی 2009

آج بوسنی مسلمان سرے برےنیتسا کے قتل عام کی چودہویں برسی منا رہے ہیں۔ آج ان 534 افراد کی تدفین بھی ہوئی ، جن کی حال ہی میں شناخت ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/IlgC
گیارہ جولائی سن 2009ء کی اِس تصویر میں بوسنی خواتین ایک رسمِ تدفین کے موقع پر نوحہ کناں ہیںتصویر: AP

11جولائی 1995ء کے دن بوسنيا کے شہر سربرينتسا ميں بوسنيا کے سیربوں نے کم از کم 8000 بوسنی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا تھا۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ چودہ سال بعد بوسنيا ميں اس شہر کوبھلا ديا گيا ہے۔ بہت سے لوگ صرف ہر سال اس واقعے کے دن يہاں آتے اور اگلے ہی روز چلے جاتے ہيں۔ يہاں کے شہری، ماضی کی يادوں کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تنہا پاتے ہيں۔

آج بوسنی مسلمان سرے برےنیتسا کے قتل عام کی چودہویں برسی منا رہے ہیں۔ آج منعقد کی جانے والی مختلف تقاریب میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔

Bosnien-Herzegowina - Srebrenica
بوسنی شہرSrebrenica کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/ dpa

11جولائی، سربرينتسا ميں بوسنيائی مسلمانوں کے قتل عام کا دن ہے۔ اس دن يہاں بہت سے لوگ آتے ہيں۔ سوئٹزرلینڈ سے آئے ایک بوسنی مسلمان عمرووچ نے کہا کہ جب وہ بھی سرائيوو آتے ہیں تو لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کب سربرينتسا کے بارے ميں سوچتے ہيں۔ اکثر کا يہ کہنا ہے کہ گيارہ جولائی کو جب ٹيليوژن پر اس بارے ميں پروگرام نشر ہوتے ہيں۔ اُس دن سب بجھے بجھے سے ہوتے ہيں ليکن اگلے ہی دن سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔

ليکن سربرينتسا کی سفيد مسجد ميں کام کرنے والے سمايووچ کی سوچ اس سے بالکل مختلف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی سے نمٹنے کے لئے اسلامی برادری بہت محدود طور پر ہی مدد دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوسنيا کے دوسرے شہروں کے مقابلے ميں سربرينتسا کے شہری روزانہ ہی گيارہ جولائی کے بھيانک قتل عام کی يادوں سے دوچار رہتے ہيں۔ مالی طور پر بھی اس کے نتائج کا مقابلہ مشکل ہے ليکن صرف سربرينتسا ہی نہيں، ملک کی پوری مسلمان کمیونٹی کو اسی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔

Srebrenica
ایک بوسنی امام مسجد سربرینتسا کی سفید مسجد کی چھت پر اذان دیتے ہوئےتصویر: AP

سربرينتسا کی سفيد مسجد سیرب گرجے سے صرف چند سو ميٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے پادری نے کہا کہ سربرينتسا ميں ماضی کی پرچھائياں اب بھی اپنا اثر ڈال رہی ہيں۔ سربرينتسا ميں مختلف قوميتی گروپوں کے درميان اب بھی بدگمانياں اور نفرت پائی جاتی ہے۔

بوسنيا کی سیرب فوج نے کئی ماہ کے محاصرے کے بعد جولائی 1995ء کے شروع ميں سربرينتسا پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان مردوں اور لڑکوں کومختلف جگہوں پر جمع کر کے قتل کر ديا تھا۔ انہيں پہلے اجتماعی قبروں ميں دفن کیا گیا لیکن بعد میں قتل عام کے نشانات مٹانے کے لئے وہاں سے نکال کر لاشوں کو دوسرے مقامات پر دفن کر ديا گيا۔ سربرينتسا کا قتل عام دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپ کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔