1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بون کانفرنس میں شرکت سے انکار، بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ

30 نومبر 2011

پاکستان پر بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13JfQ
تصویر: picture alliance/dpa

امریکہ، جرمنی اور افغانستان کی قیادت نے پاکستان کی جانب سے جرمنی کے شہر بون میں پانچ دسمبر کو افغانستان سے متعلق ہونیوالی کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں فون کر کے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے کہا ہے۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس افغانستان کے بارے میں ہو رہی ہے اس لئے پاکستان کی شرکت کے بغیر ادھوری رہے گی۔ وزیر اعظم گیلانی کے بقول انہوں نے افغان صدر پر واضح کیا کہ نیٹو حملہ افغانستان کی سرزمین سے ہوا ہے، اس لئے بون کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکتے۔

Flash-Galerie Bilder der Woche KW 47
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گاتصویر: dapd

ادھر پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کے لئے پاکستان کی سلامتی کسی بھی ملک کی سلامتی سے زیادہ مقدم ہے۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ ہم نے بطور احتجاج بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہے اور ہمیں واضح کرنا ہے کہ ہم کس طرح اپنے قومی مفاد کے مطابق پالیسیاں بناتے اور ملکوں سے تعلقات رکھتے ہیں۔ حنا ربانی کھر نے کہا، ’’پاکستان کوئی اکلوتا یا انوکھا ملک نہیں ہے جو اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہے۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ ہم اپنی سلامتی اور خود مختاری پر اپنے حلیفوں سے ضمانت نہیں لے سکتے جس کو بار بار پامال کیا جا رہا ہے، تو ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر ہم یہ حملے نہیں رکوا سکتے تو پھر ہم موجودہ صورتحال میں کہیں مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے۔‘‘

دوسری جانب بعض حلقے پاکستان کی جانب سے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو حقیقت پسندی کی بجائے جذباتیت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے موقر روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان کو اپنے اس فیصلے کو احتیاط کے ساتھ پرکھنا چاہیے۔ حکومت کو اس فیصلے کے مضمرات کے بارے میں بھی اچھی طرح سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ بون کانفرنس میں 90 سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے اور اس میں 2014ء میں اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں استحکام کے لیے انتظامات پر غور کیا جائے گا۔

Bundesaußenminister Joschka Fischer und Afghanistans Präsident Harmid Karsai auf der zweiten Petersberg-Konferenz in Königswinter bei Bonn
افغانستان کے بارے میں بون کانفرنس کو جنگ زدہ ملک میں قیام امن کے لیے کافی اہم خیال کیا جا رہا ہےتصویر: AP

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان بون کانفرنس میں شرکت کے ذریعے نہ صرف مستقبل کے افغانستان میں اپنے مفادات کا بہتر تحفظ کر سکتا ہے بلکہ نیٹو کے حالیہ حملے پر احتجاج کے لئے بھی ایک بڑا فورم استعمال کر سکتا ہے۔

اسلام آباد اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق نے پاکستان کے بون کانفرنس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کے پاس زیادہ آپشن موجود نہیں ہیں۔ ایک تو ملٹری آپشن تھا، دوسرا سفارتی اور سیاسی راستہ تھا اور بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر کے میرا خیال ہے کہ پاکستان نے اپنا سیاسی و سفارتی راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہیں اپنا مقدمہ بون کانفرنس میں بھرپور انداز سے بیان کرنا چاہیے تھا۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں