1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بُدھ مت اکثریتی ملک میں مسلمانوں کے تناسب کے تاریخی حقائق

کشور مصطفیٰ21 اکتوبر 2015

واشنگٹن ڈی سی میں قائم Pew ریسرچ سنٹر کی تازہ ترین کے مطابق میانمار کی آبادی کا 80 فیصد بُدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے تاہم وہاں چار فیصد مسلم باشندے بھی طویل عرصے سے وہاں آباد ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GrQ6
تصویر: AFP/Getty Images

میانمار میں گزشتہ کچھ عرصے سے ہونے والی زیادہ تر جھڑپوں اور تصادم کا مرکز ملک کے مغربی حصے میں آباد مسلم نسلی گروپ روہنگیا رہا ہے تاہم اس ملک میں آباد دیگر مسلم گروپوں کے ساتھ بھی کشیدگی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔

میانمار کا پُرانا نام برما تھا۔ برما کے بادشاہوں کی مسلمان مخالف قانون سازی کی روایت ماضی میں 16ویں صدی تک جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں بہت سے مسلمان بھارت سے میانمار کام کے لیے آئے تھے۔

اُن کی آمد برما میں ایک بڑی اشتعال انگیزی ثابت ہوئی۔ یہاں تک کے 1930ء اور 1938ء میں خونریز جھڑپیں ہوئیں۔ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا استحصال ہوتا رہا اور یہ سلسلہ باقاعدہ قانونی شکل اُس وقت اختیار کر گیا جب برما کی ملٹری جنتا 1962ء میں برسر اقتدار آئی۔ تب مسلمانوں کو فوج سے نکال دیا گیا۔

Myanmar Rohingya Flüchtlinge
روہنگیا مہاجرینتصویر: Reuters

میانمار میں مسلم مخالف جذبات اُس وقت اور شدت سے بھڑک اُٹھے جب انتہا پسند طالبان عناصر نے 2001ء میں افغانستان میں قائم بُدھا کا قدیم مجسمہ منہدم کر دیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق برما کے مرکزی شہر ٹاؤنگو میں ہونے والے فسادات اور وہاں کی ہنتھا مسجد کی تباہی کی وجہ بامیان میں بُدھا کے مجسموں کو ڈھانا ہی بنی تھی۔

میانمار کی مشرقی ریاست راکھین میں تشدد کی آگ 2012ء کے وسط سے پھیلنا شروع ہوئی جس نے ہزاروں مسلمانوں کو ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی آبادی میں شامل اقلیتی گروپوں کی سرکاری فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح قریب ایک ملین نفوس پر مشتمل یہ گروپ بے وطن ہو کر رہ گیا۔

Myanmar Birma Unruhen Rohingya
میانمار میں مسلمان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیںتصویر: CHRISTOPHE ARCHAMBAULT/AFP/Getty Images

میانمار روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی قرار دیتا ہے جن کے آباء و اجداد برطانوی نو آبادیاتی دور میں بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے برما آ گئے تھے۔

1950ء میں ریاست راکھین میں ایک جہادی مہم روہنگیا اکابرین کی طرف سے چلائی گئی جو ایک خود مختار مسلم ریاست کے قیام کی کوششیں کر رہے تھے۔

1978ء میں جب میانمار کے طاقتور فوجی جنرل نے وِن نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ملٹری کریک ڈاؤن شروع کیا تو اُن میں سے زیادہ تر فرار ہو کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہی چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ صوبہ راکھین کے قریب ایک لاکھ چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے میانمار میں فسادات سے فرار ہو کر کشیتوں کے ذریعے جنوبی تھائی لینڈ، مسلم اکثریت والے ممالک ملیشیا اور انڈونیشیا کی طرف جانے کی کوشش کی۔