’فرسودہ قوانین اور روایات‘ کا خاتمہ ضروری، میشل اوباما
4 نومبر 2015امریکی خاتون اوّل میشل اوباما نے قطری دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ ایک ایجوکیشن کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لڑکیوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک پر ’ایماندانہ طریقے سے بحث‘ شروع کی جانا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کے سات روزہ دورے کے دوران انہوں نے دوحہ میں بدھ کے دن کہا کہ ایسے حالات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے لاکھوں بچیاں اپنی تعلیم کو مکمل نہیں کر سکتی ہیں۔
میشل اوباما کے بقول، ’’ اگر ہم بچیوں کو اسکول میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بارے میں دیانتداری کے ساتھ گفتگو اور بحث شروع کر دینا چاہیے کہ ہم اپنے معاشروں میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ یہ بحث اس دنیا کے تمام ملکوں میں شروع ہونا چاہیے، جس میں میرا ملک (امریکا) بھی شامل ہے۔‘‘
ورلڈ انوویشن سمٹ فار ایجوکیشن کے مندوبین سے مخاطب ہوئے میشل اوباما کا مزید کہنا تھا، ’’جب لڑکیاں چھوٹی ہوتی ہیں تو ہم انہیں صرف بچوں کی طرح ہی دیکھتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ بلوغت کی طرف جاتی ہیں اور عورت بننے کے قریب ہوتی ہیں تو وہ اچانک صنفی بنیادوں پر سماجی تعصب کا نشانہ بن جاتی ہیں۔‘‘
امریکی خاتون اوّل کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچیوں کے خلاف امتیازی سلوک معاشرے کے عقائد اور رویوں کا عکاس ہوتا ہے، ’’یہ ایسا ہی کہ والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے کیا سوچتے ہیں۔ کیا وہ سوچتے ہیں کہ بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح تعلیم دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ معاشرتی سطح پر ایسے ’فرسودہ قوانین اور روایات‘ کا خاتمہ ضرروی ہے، جو اس مخصوص حوالے سے لڑکیوں سے امتیازی سلوک کا باعث بنتے ہیں۔
اپنی پچیس منٹ کی تقریر میں میشل اوباما نے یہ بھی کہا کہ دنیا بھر میں اس وقت باسٹھ ملین بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اس ایجوکیشن سمٹ میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مندوبین شامل تھے، جن میں سیاستدان اور تعلیمی شعبے سے منسلک اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔
میشل اوباما نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا، ’’آج میں یہاں ۔۔۔ تمام مردوں کی موجودگی میں کہتی ہوں۔۔۔ کہ ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ بطور باپ، شوہر اور ایک انسان ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپ کی ضرورت ہے کہ آپ ایسے قوانین اور عقائد کے خلاف آواز بلند کریں، جن سے عورتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘