1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچے اب مزدوری نہیں، پڑھائی کریں

صائمہ حیدر19 مئی 2016

دو کمروں کے اس مکان میں آج جشن کا سا سماں ہے، جہاں شالنی منوسوامی اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے۔ 11 برس کی عمر تک جبری مشقت کا شکار رہنے والی شالنی نے حال ہی میں بھارت کے جنوبی شہر چنئی سے گریجویشن کی۔

https://p.dw.com/p/1IqNl
Indien Steinbrucharbeiter Arbeitssicherheit
بھارت میں پانچ سے سترہ سال کی عمر کے 5.7 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیںتصویر: Getty Images/AFP/C. Mao

جھینگوں سے بھری ہر ٹوکری کی صفائی پر اسے 100 بھارتی روپے ملا کرتے تھے۔ ایسے میں جب اس ہفتے تامل ناڈو کی جنوبی ریاست میں اسکول کےامتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا تو شالنی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کامیاب امیدواروں میں ایک نام اس کا بھی ہو گا۔ یہ کامیابی اس کی زندگی میں ایک اہم سنگ میل تھی، جس تک پہنچنے کا اسے کبھی یقین نہیں تھا۔

شالنی نے حال ہی میں مرمت کی گئی اپنے گھر کی گھاس پھوس سے بنی چھت کے نیچے کھڑے ہوئے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ بالکل نا ممکن لگ رہا تھا۔ گھر میں پیسوں پر مستقل جھگڑا رہتا اور میں اپنی کتابیں لے کر پڑھنے کے لیے باہر چلی جاتی۔‘‘

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں 5 سے 17 سال کی عمر کے 5.7 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں جب کہ عالمی سطح پر ایسے بچوں کی تعداد 168 ملین بنتی ہے۔

بھارت میں چائلڈ ورکرز کی نصف سے زیادہ تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ ایک چوتھائی سے زائد بچے سلائی کڑھائی، قالین بنانے اور ماچس سازی کی صنعت سے جڑے ہیں جبکہ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد کارخانوں، ہوٹلوں اور متوسط طبقے کے گھروں میں ملازمین کی حیثیت سے بھی مزدوری کرتی ہے۔

آر پرمیلا ایک اسکول ٹیچر ہیں، جو بھارت کی قومی چائلڈ لیبر پالیسی کے تحت اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں۔ ان کا کام مزدوری کرنے والے بچوں کو اس مشقت سے آزاد کروا کے اسکول سسٹم کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔

Indien Schule Schulkinder lernen
بھارت میں مزدور بچوں کو تعلیمی نظام کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیںتصویر: AP

پرمیلا کا کہنا ہے، ’’ماہی گیروں کی کشتیوں پر تازہ پکڑی ہوئی مچھلیوں کا بوجھ اٹھانے یا ان کی صفائی کرنے والے اور ماہی گیروں کی ایک آواز پر دوڑ کر آنے والے ان مزدور بچوں کی شناخت ان کے لیےایک حقیقی چیلنج رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ دشوار ان بچوں کو درس و تدریس کی طرف واپس لانا ہے کیونکہ ان کے والدین ان کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘

شالنی چھٹی جماعت میں تھی کہ اسے سکول سے اٹھا لیا گیا۔ اس کی وجہ 5 لاکھ روپے کے اس قرض کی ادائیگی میں اپنے والدین کی مدد کرنا تھا جو انہوں نے اس کی بہن کی شادی پر لیا تھا۔

پانچ سال قبل جب پرمیلا کی ملاقات شالنی سے ہوئی اور انہوں نے اس سے واپس اسکول جانے کا پوچھا تو اس کا فوری جواب ہاں میں تھا۔

قرض کے بندھن سے آزاد ماہی گیروں کی اس بستی کے بچے اب پرمیلا کے تعلیمی مرکز میں پڑھنا لکھنا، رقص کرنا اور گانا سیکھتے ہیں۔

بچوں کو مزدوری کی دنیا سے نکال کر اسکولوں میں لانے کی کوشش بھارت کی قومی چائلڈ لیبر پالیسی کا حصہ ہے جسے 1980 میں وضع کیا گیا تھا۔