1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کی قیمت صنف نازک چکا رہی ہے‘

عدنان اسحاق11 جولائی 2016

دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور نوجوان لڑکیوں کو اس کی قیمت اپنی خراب صحت کے ساتھ چکانا پڑ رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر پانچویں لڑکی اپنی اٹھارہویں سالگرہ سے قبل ماں بن جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JNAi
تصویر: DW/Jan-Philipp Scholz

ہر سیکنڈ میں دنیا کی آبادی میں 2.6 افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگر عالمی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی، تو اگلے پندرہ سالوں میں یہ آبادی اس وقت 7.3 ارب سے بڑھ کر 8.5 ارب ہو جائے گی جبکہ سن 2100 ء میں کرہ ارض پر 11.2 ارب انسان بس رہے ہوں گے۔ تاہم اس صورتحال کو لڑکیوں اور خواتین کے معیار زندگی پر توجہ دیتے ہوئے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ گیارہ جولائی پیر کے روز منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کے موقع پر اس سال کا موضوع یہی بھلا دی جانے والی نو عمر لڑکیاں ہیں۔

اقوام متحدہ 1989ء سے اس دن کی مناسبت سے بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کی جانب توجہ مبذول کرا رہا ہے اور ساتھ ہی ماؤں کے حقوق اور ان کی صحت سے متعلق معاملات کو مرکزی اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ اس بناء پر بہت سی امدادی تنظیموں نے Investing in teenage girls یعنی ’کم سن بچیوں کی صحت اور تربیت کے شعبوں میں سرمایہ کاری‘ کو اپنا موٹو بنا رکھا ہے۔ ان تنظیموں کا موقف بھی یہی ہے کہ نو عمر لڑکیوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا اور ان کے لیے نئے امکانات پیدا کرنا عالمی آبادی میں انتہائی تیز رفتار اضافے پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

Überbevölkerung, Weltbevölkerungstag
تصویر: AP

جرمن شہر ہینوور میں قائم آبادی سے متعلق ایک فاؤنڈیشن کی ریناٹے بیئر کہتی ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں آبادی میں اضافہ بہت تیزی سے ہو رہا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ عورتوں یا لڑکیوں کا اپنی خواہش یا مرضی کے بغیر حاملہ ہونا بھی ہے، ’’ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 74 ملین لڑکیاں اور خواتین اپنی مرضی کے بغیر حاملہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ احتیاطی طریقہ کار سے متعلق معلومات کا فقدان ہے۔‘‘

عالمی آبادی سے متعلق ایک اور فاؤنڈیشن کی لیونی مؤسگ کہتی ہیں، ’’خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کا جسم اس قابل نہیں ہوا ہوتا کہ وہ حمل کے دوران پیدا ہونے والی جسمانی اور طبی پیچیدگیوں کو برداشت کر سکے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ پندرہ سے انیس برس تک کی عمر کی لڑکیوں میں ہلاکت کی دوسری سب سے بڑی وجہ حمل اور زچگی کے دوران سامنے آنے والے مسائل ہیں۔ اس صورت حال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل سے آگہی اور اس سلسلے میں تربیت کی فراہمی انتہائی ضروری ہیں۔ لیونی مؤسگ کے مطابق، ’’تعیلم یافتہ لڑکیوں اور خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر علم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ بہتر فیملی پلاننگ کر سکتی ہیں۔‘‘