1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑی سفارتی فتح: اقوام متحدہ کی عمارت پر اب فلسطینی پرچم بھی

مقبول ملک11 ستمبر 2015

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نیو یارک میں اس عالمی ادارے کی مرکزی عمارت پر دیگر رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی پرچم لہرانے کی بھی اکثریتی رائے سے منظوری دے دی ہے۔ اسے فلسطینیوں کی ایک بڑی سفارتی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GV0H
تصویر: Getty Images/C. Furlong

امریکی شہر نیو یارک میں عالمی ادارے کے صدر دفاتر سے جمعہ گیارہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی نے یہ منظوری مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی رات ہونے والی رائے شماری میں دی۔ جنرل اسمبلی میں اس قرارداد پر رائے شماری میں 119 ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 45 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

اے ایف پی کے مطابق اس قرارداد کی مخالفت میں صرف آٹھ ووٹ ڈالے گئے جن میں سے ایک فلسطینیوں کے ساتھ عشروں سے جاری تنازعے کے فریق ملک اسرائیل کا تھا اور ایک ووٹ امریکا کا بھی، جو پوری دنیا میں اسرائیل کا سب سے بڑا‍ حلیف ملک ہے۔

اس قرارداد کے منظور کیے جانے کو فلسطینی خود مختار انتظامیہ کی قیادت میں فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی طویل جدوجہد میں ایک بڑا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی اس قرارداد کے مسودے کے مطابق اب فلسطین اور ویٹی کن سٹی، جسے Holy See بھی کہا جاتا ہے، کو یہ اجازت مل گئی ہے کہ ان کے جھنڈے بھی عالمی ادارے کے ہیڈ کوارٹرز پر دیگر رکن ملکوں کے پرچموں کے ساتھ لہرائے جا سکیں گے حالانکہ فلسطین اور ویٹی کن سٹی دونوں ہی اقوام متحدہ کے مکمل رکن ممالک نہیں بلکہ انہیں مبصر رکن ملکوں کی حیثیت حاصل ہے۔

بیس دن کا وقت

اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کے پاس اس پر عملدرآمد کے لیے بیس دن کا وقت ہے اور اہم بات یہ ہے کہ عالمی ادارے کی عمارت پر فلسطینی پرچم ممکنہ طور پر ٹھیک بیس دن بعد اس وقت لہرایا جا سکتا ہے جبکہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس تیس ستمبر کو اقوام متحدہ کا دورہ کریں گے۔

قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے کہا، ’’یہ ایک علامتی فیصلہ ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کے ستونوں کو مضبوط کرنے کی طرف ایک اور بہت اہم قدم۔‘‘ اسی طرح اس فیصلے کے بعد پیرس میں موجود فلسطینی وزیر اعظم رامی حمداللہ نے کہا کہ یہ کامیابی فلسطین کو اقوام متحدہ کا ایک مکمل رکن ملک بنانے کی منزل کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے۔

یورپی ملک تقسیم

اس قرارداد پر رائے شماری کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اس بارے میں یورپی ملک تقسیم کا شکار رہے۔ فرانس، روس اور سویڈن نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ، جرمنی، آسٹریا، فن لینڈ، ہالینڈ اور قبرص نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔ ویٹو طاقتوں میں سے اس قرارداد کی چین نے بھی حمایت کی۔

فلسطینی خود مختار انتظامیہ کی قیادت میں فلسطینیوں کو اسرائیل اور امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود ’غیر رکن مبصر ملک‘ کی حیثیت 2012ء میں 29 نومبر کو ملی تھی اور تب جنرل اسمبلی میں 138 رکن ملکوں نے اس کی حمایت اور نو ریاستوں نے مخالفت کی تھی جبکہ 41 رکن ملکوں نے اپنی رائے محفوط رکھی تھی۔

Mahmud Abbas
اس قرارداد کے منظور کیے جانے کو فلسطینی خود مختار انتظامیہ کی قیادت میں فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی طویل جدوجہد میں ایک بڑا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Str.

امریکی اور اسرائیلی تنقید

جمعرات کی رات اس قرارداد کی منظوری کے بعد عالمی ادارے میں امریکی خاتون سفیر سمانتھا پاور نے کہا، ’’جھنڈا لہرانا نہ تو مذاکرات کا کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی اس طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے۔‘‘

اسی طرح اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر رَون پروسَور نے الزام لگایا، ’’فلسطینی اقوام متحدہ میں سیاسی پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے سنکی طریقے سے چالبازی کر رہے ہیں۔‘‘ اسرائیلی سفیر نے مزید کہا، ’’کسی بھی طرح کی ووٹنگ ایک خالی علامتی فیصلے کو ایک ریاست میں نہیں بدل سکتی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں