1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑے پیمانے پر ممنوعہ بور کے اسلحے کے لائیسنسوں کا اجراء

رپورٹ امتیاز گل/ ادارت عدنان اسحاق 15 اگست 2009

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ساڑھے بائیس ہزار لائسنس وزیراعظم کی منظوری سے جاری کئے گئے۔ بعد ازاں وزیراعظم نے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا اختیار وزیر مملکت برائے داخلہ کو تفویض کر دیا۔

https://p.dw.com/p/JBxS
تصویر: AP

ڈوئچے ویلے کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومت نے ایک سال کے دوران ممنوعہ بور کے اسلحے کے ساڑھے اٹھائیس ہزار لائسنس جاری کئے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ساڑھے بائیس ہزار لائسنس وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے جاری کئے گئے۔ بعد ازاں وزیراعظم نے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا اختیار وزیر مملکت برائے داخلہ کو تفویض کر دیا، جس کے نتیجے میں اپریل سے جون کے دوران صرف چھ ماہ میں تین ہزار لائسنس جاری کئے گئے۔ اس دوران بعض ارکان پارلیمنٹ اورعام لوگوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ وزارت داخلہ کی آرمز لائسنس برانچ میں رشوت کے عوض بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں۔ اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم نے اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی عائد کر کے انکوائری کا حکم بھی دیا جس کے بعد وزارت داخلہ کے تین سیکشن افسران کو گرفتار کیا گیا اوران سے بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کی تصدیق بھی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں تا حال اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پرقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اس معاملے کی چھان بین کرنے کے علاوہ آئندہ اسلحہ لائسنس جاری کرنے کے لئے تجاویزمرتب کررہی ہے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین عبدالقادر پٹیل اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہیں:

'' اس بات سے میں ہرگز انکار نہیں کرتا ہے کہ ملک میں اس وقت لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر نہیں ہے لہٰذا ایک شریف شہری جو اسلحہ رکھنے کا اہل ہے اس کا یہ بنیادی حق بنتا ہے کہ وہ اسلحہ رکھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی آپ کسی بھی اسلحہ کی دکان سے اپنا ٹیکس کارڈ دکھا کر اسلحہ لے سکتے ہیں۔‘‘

دوسری جانب سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہٰ محمود نے ممنوعہ بور کے اسلحے کے لائسنسوں کے اجراء کو ایک خطرناک رجحان قرار دیا ہے:

'' یہ انتہائی خطرناک چیز ہے جب ہر شخص کے پاس اسلحہ موجود ہو گا تو یہ چیز جرائم کو قابو کرنے میں مددگار نہیں ہوگی بلکہ جرائم کو بڑھائے گی لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت بہتر بنانے اور لوگوں میں اس بات کا اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے حکومت بھی ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہے‘‘۔

ممنوعہ بور کے اسلحے کے لائسنسوں کی بڑی تعداد میں اجراء کے بعد عوامی حلقوں کی تشویش میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعض ارکان مبینہ طورپرجرائم پیشہ گروہوں کی بالواسطہ یا براہ راست سرپرستی بھی کرتے ہیں اور خدشہ یہ ہے کہ یہی جدید ہتھیارغیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں کےلئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔