1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بگرام ’’اوباما کا گوانتانامو‘‘

امجد علی15 اپریل 2009

امریکی صدر باراک اوباما گوانتانامو حراستی کیمپ کو بند کرنے کے تو خواہاں ہیں لیکن افغانستان میں بگرام کے مقام پر واقع فوجی جیل بند نہیں کرنا چاہتے بلکہ اب اِس جیل میں مزید تعمیر و توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HXc9
بگرام حراستی مرکز کی فضا سے لی گئی ایک تصویرتصویر: Google Maps/Digital Globe

ناقدین کابل سے شمال کی جانب واقع امریکی فوجی جیل کو "اوباما کا گوانتانامو" کہتے ہیں کیونکہ جہاں نئے امریکی صدر گوانتانامو کو بند کرنا چاہتے ہیں، وہیں وہ بگرام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بُش کی پالیسیوں ہی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بگرام میں اِس وقت چھ سو تا ساڑھے چھ سو قیدی ہیں۔

جرمن سوشل ڈیموکریٹ خاتون سیاستدان ہائیڈے ماری وچورک سوئیل اپنے اِس مطالبے میں تنہا ہیں کہ اِس کیمپ کو بند کر دیا جانا چاہیے۔ افغان امور کے ماہر اور جرمنی کی گرین پارٹی کے سیاستدان وِنفریڈ ناخت وائی کیمپ بند کرٓنے کا مطالبہ نہیں کرتے تاہم کہتے ہیں کہ ان قیدیوں کے حالات کے بارے میں شاید ہی کوئی بات منظر عام پر آنے دی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’یہ بات کہے بغیر چارہ نہیں کہ اب تک بگرام ایک سیاہ سوراخ کی مانند ہے۔‘‘

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے سوا کسی کو بھی اِس بالکل الگ تھلگ واقع کیمپ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ وہاں سے کوئی تصاویر بھی سامنے نہیں آئی ہیں۔ اِس کیمپ کے سابقہ قیدیوں کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بگرام میں درحقیقت ہو کیا رہا ہے۔

BdT Guantanamo Gerichtsprozess
امریکی صدر اوباما نے گوانتانامو کے حراستی مرکز کی بندش کا اعلان کیا تھاتصویر: AP

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فیرڈینانڈ مُگن تھالر کے مطابق گذشتہ چند برسوں کے دوران کئی ہزار قیدی اِس کیمپ سے ہو کر گذرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’بگرام میں ابتدائی دَور کے دوران جبر و تشدد اور بدسلوکی کے حوالے سے بہت زیادہ رپورٹیں ملی ہیں۔ قیدیوں کے ہاتھوں میں زنجیریں پہنا کر اُنہیں لٹکایا جاتا تھا، سونے نہیں دیا جاتا تھا، اُنہیں چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں میں بھر کر رکھا جاتا تھا۔ کم از کم دو قیدی ہلاک بھی ہوئے، جس کے لئے چند ایک فوجیوں کو مضحکہ خیز حد تک کم سزائیں بھی سنائی گئیں۔‘‘

اپریل کے اوائل میں امریکی خاتون وکیل پَیرڈِس کبریائی جرمنی کے ایک دَورے پر آئیں۔ اُن کے مؤکلین میں گوانتانامو کے کچھ قیدی بھی شامل ہیں۔ امریکی فوجی جیل کے حالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اُن کا کہنا تھا:’’بگرام میں قید کے حالات بدستور خوفناک ہیں۔ حال ہی میں رہا ہونے والے قیدیوں نے بتایا ہے کہ وہاں تشدد اور مارپیٹ روا رکھی گئی۔ قیدیوں کو زیادہ تر پنجروں میں رکھا جاتا ہے۔ اگر ریڈ کراس سے قطع نظر کوئی غیر جانبدار مبصر کیمپ میں نہ جاتا ہو اور آزاد عدالتیں معاملات کی تحقیقات نہ کر سکتی ہوں تو اِس کا یہی مطلب ہے کہ بدسلوکی کے واقعات جاری رہیں گے۔‘‘

اِس کیمپ کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی کا امریکی حکومت یہ کہہ کر دفاع کرتی ہے کہ یہ جیل افغانستان کے جنگ کی لپیٹ میں آے ہوئے علاقے میں واقع ہے اور اسی لئے وہاں امریکی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کا مطالبہ یہ ہے:’’بگرام کے قیدیوں کو عام عدالتی کارروائی تک رسائی ملنی چاہیے اور اُنہیں اپنی قید کے خلاف امریکہ میں اپیل کا حق ملنا چاہیے اور اُسی صورت میں مزید قید میں رکھا جانا چاہیے جب عدالت اُنہیں قصور وار قرار دے۔‘‘

حقوقِ انسانی کے لئے سرگرم تنظیموں کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ بگرام گوانتانامو کے متبادل کا کام دے۔ امریکی خاتون وکیل کبریائی کے مطابق بگرام کیمپ میں توسیع کے منصوبے بنائے جا چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’ہمیں امریکی حکومت کےمنصوبوں کی جو تفصیلات پڑھنے کا موقع ملا ہے، اُن کے مطابق بگرام کیمپ میں اِس قدر توسیع کی جا رہی ہے کہ اِس میں اضافی طور پر ایک ہزار سے زیادہ قیدی رکھے جا سکیں۔ بگرام میں تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی دَستوں کی تعداد میں اضافے کے بعد امکان یہی نظر آتا ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد بڑھے گی اور یوں یہ کیمپ امریکہ کےلئے بدستور اہم رہے گا۔‘‘

حقوقِ انسانی کے لئے سرگرم تنظیموں کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ بگرام گوانتانامو کے متبادل کا کام دے۔