1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتیہ جنتاپارٹی کا انتخابی منشور

افتخار گیلانی، نئی دہلی3 اپریل 2009

بھارت میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار میں آنے کے لئے ایک بار پھر ہندوتوا کا پرانا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HPlB
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ اور وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار ایل کے اڈوانی پارٹی کے منشور کے اجراء کے موقع پرتصویر: AP

اس نے اپنے انتخابی منشور میں ایک بار پھر انہیں پرانے ایجنڈوں کو شامل کیا ہے جن کے سہارے وہ 1998 میں اقتدار میں آئی تھی۔

اس انتخابی منشور میں بھی رام مندر کی تعمیر، رام سیتوکی حفاظت، یکساں سول کوڈ کے نفاذ، جموں و کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آئین کی دفعہ 370 کا خاتمہ، گایوں کی تحفظ اور گئو کشی پر پابندی جیسے امور شامل ہیں۔

بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے 48 صفحات پر مشتمل منشور پیش کرتے ہوئے کہا اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی اجودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر تعمیر کرائے گی، گائے اس کا ایک جذباتی موضوع رہا ہے اور پارٹی تحفظ گاؤ اور گئو کشی پر پابندی کے لئے ضروری قانون بنائے گی، پارٹی رام سیتو کے انہدام کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرے گی اور اقتدار میں آنے پر رام سیتو کے حوالے سے سیتو سمدرم پروجیکٹ کا متبادل حل تلاش کرے گی۔ تاہم بی جے پی نے پہلی بار اپنے انتخابی منشور میں اقلےتوں کے لئے ایک علیحدہ باب مخصوص کیا ہے اور اس میں اقلیتوں کے فلاح و بہبود کے لئے کئی وعدے کئے گئے ہیں۔

اس موقع پر موجود بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار لال کرشن اڈوانی سے جب پوچھا گیا کہ کیا قومی جمہوری اتحاد یعنی این ڈی اے میں ان کے اتحادی بھی ان امور سے اتفاق کریں گے تو انہوں نے انکشاف کیا کہ جب بی جے پی کی قیادت میں ملک میں اےن ڈی اے کی حکومت تھی تو اس میں شامل پارٹیوں کو اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں تھا انہیں بی جے پی کی صرف اس بات سے اعتراض تھا کہ اس کے لئے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب چندر شیکھر ملک کے وزیراعظم تھے تب انہوں نے رام مندر بابری مسجد تنازع کو حل کرنے کی ایک کوشش بھی کی تھی اور اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔

اڈوانی نے کہا کہ پارٹی نے تین امور کو اپنا انتخابی موضوع بنایا ہے ۔اچھی حکومت، ترقی اور سلامتی۔ انہوں نے جمعہ کے روز ہندووں کے تیوہار رام نومی کے دن انتخابی منشور کو جاری کرنے کو پارٹی کے لئے ایک نیک فال قرار دیا۔

بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں عوام اور ووٹروں کو لبھانے کے لئے ڈھیر سارے وعدے کئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی نے وعدوں کے سلسلے میں دراصل اپنی حریف کانگریس پارٹی کو مات دینے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں جہاں خط افلاس سے نیچے رہنے والوں کو تین روپے فی کلوگرام اناج دینے کا اعلان کیا تھا بی جے پی نے انہیں دو روپے فی کلوگرام اناج دینے کا وعدہ کیاہے۔کانگریس نے درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو پرائیوٹ سیکٹر میں ملازمتوں میں ریزویشن دلانے کا وعدہ کیا ہے تو بی جے پی نے ا س سے ایک قدم آگے بڑھ کر معاشی اعتبار سے کمزور طبقات کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیاہے۔ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد تین لاکھ روپے تک آمدنی کو ٹیکس سے مستثنی قرار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بی جے پی نے کسانوں کے تمام قرضے معاف کرنے انہیں چار فیصد سود پر قرض دینے، پانچ برسوں میں 3.5 ہیکٹر فاضل زرعی اراضی کی آبپاشی کے انتظامات کرنے، غیرمنظم سیکٹر کے مزدوروں کے لئے مالیاتی تحفظ فراہم کرنے، تما م شہریوں کے لئے صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لئے خصوصی پروگرام چلانے، خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے متعدد نئے پروگرام اورمنصوبے شروع کرنے وغیرہ کا اعلان کیا گیا ہے۔

بی جے پی نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پوٹا جیسا سخت قانون نافذکرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔پارٹی نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ غیرقانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کی شناخت کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ پارٹی کا خیال ہے کہ غیرملکی تارکین وطن بھارت کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں اور انہیں ملک سے باہر بھیج دینا چاہئے۔

بی جے پی نے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات بحال کرنے کےلئے پانچ شرائط رکھی ہیں جس میں پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچوں کا خاتمہ کرنے، انتہاپسند عناصر اور تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے، دہشت گردی کو سرکاری پالیسی کے طور پراستعمال سے گریز کرنے، بھارت کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لئے تیسرے ملکوں کا استعمال نہ کرنے اور بھارت کو مطلوب دہشت گردوں کو نئی دہلی کے حوالے کرنے جیسی شرائط شامل ہیں۔

دریں اثنا حکمراں کانگریس پارٹی نے بی جے پی کے انتخابی منشور پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل بے معنی منشور ہے کیوں کہ ان پر عمل درآمد اس کے لئے ممکن ہی نہیں اور عوام کی فلاح و بہود کی جن پروگراموں کا وعدہ بی جے پی کررہی ہے ان میں سے 70 فیصد پر کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت پہلے سے ہی عمل کررہی ہے۔ کانگریس کے سینئر وزیر کپل سبل نے اس حوالے سے کہا کہ یہ صرف بی جے پی کا منشور ہے اور این ڈی اے کی حلیف جماعتیں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔ جنتا دل یونائیٹڈ کے رہنما اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے تو بی جے پی کے اس ایجنڈے کو ماننے سے فورا انکار کردیا ہے۔