1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مسلم خواتین اب قاضی بن سکیں گی

صائمہ حیدر20 جولائی 2016

مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بھارتی تنظیم خواتین کو جج اور قاضی بننے کی تربیت دے رہی ہے۔ ایسا ان شعبوں میں خواتین کی زیادہ نمائندگی کے مطالبے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JSVJ
Symbolbild Indien muslimische Frauen Muslimin Kaschmir
مسلم خواتین کو قرآنی و آئینی قوانین اور صنفی حقوق پڑھائے جائیں گےتصویر: Reuters/P.Rossignol

بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن یا بھارتی مسلم خواتین کی تحریک (بی ایم ایم اے) نے پہلے مرحلے میں تیس خواتین کو تربیت کے لیے منتخب کیا ہے۔ ان خواتین کو قرآنی اور آئینی قوانین اور صنفی حقوق پڑھائے جائیں گے۔ بی ایم ایم اے کی شریک بانی ذکیہ سمن کا کہنا ہے کہ ایک سال پر محیط اس تربیتی پروگرام سے بھارت بھر میں قاضی خواتین کی مناسب تعداد مہیا ہو سکے گی۔عام طور پر یہ شعبے مرد حضرات کے لیے مختص ہوتے ہیں۔

بھارت میں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ اسی سبب سے بھارتی آئین مسلمانوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملات کو اپنے سول کوڈ کے مطابق طے کر سکیں۔ اسلام میں قاضی کا کردار بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات اور رسوم کی ادائیگی سے لے کر طلاق کو حتمی شکل دینے اور فریقین میں باہمی تصفیہ کرانے کرنے تک تمام معاملات کی ذمہ داری بظاہر ایک قاضی پر ہی عائد ہوتی ہے۔

Indien Sadia Akhtara BMMA Organisation Training Frauen Qazi
صفیہ اختر کے مطابق اگر خاتون ملک کی وزیر اعظم اور پائلٹ ہو سکتی ہے تو قاضی کیوں نہیںتصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

بی ایم ایم اے کی شریک بانی خاتون ذکیہ سمن کے مطابق روایتی طور پر قاضی کا عہدہ مردوں کو ہی تفویض کیا جاتا ہے اور ان کے فیصلوں پر کبھی اعتراض نہیں کیا جاتا نہ ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں خواہ وہ فیصلے خواتین کے حق میں غیر منصفانہ ہی کیوں نہ ہوں۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے سر گرم کارکنان کی رائے میں یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب ایسے قوانین کے خلاف اختلاف رائے میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں مسلم خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ بھارتی مسلم مہیلا تحریک کی طرف سے گزشتہ برس کرائے گئے ایک سروے کے مطابق نوے فیصد خواتین کی رائے میں تین بار طلاق اور تعددِ ازواج کے قوانین کو ختم کیا جانا چاہیے۔

گزشتہ ماہ بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ اس بات کی جانچ پڑتال کرے گی کہ مسلم قوانین میں کس حد تک مداخلت کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ میں مسلمان مردوں کی جانب سے اپنی بیویوں کو تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر طلاق دینے کے عمل کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے۔

ذکیہ سمن کا کہنا ہے کہ قاضی کے عہدے کے لیے جن عورتوں کو تربیت دی جا رہی ہے وہ مہاراشٹر، راجھستان، مدھیہ پردیش، تامل ناڈو اور بہار کی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشتر سماجی کارکن ہیں۔ مسلم اکثریت والے ممالک ملیشیا اور انڈونیشا میں کچھ خواتین قاضی کے عہدے پر تعینات کی جا چکی ہیں۔

Oberstes Gericht in Indien
بھارتی عدالت عالیہ اس بات کی جانچ کرے گی کہ مسلم قوانین میں کس حد تک مداخلت کی جا سکتی ہےتصویر: CC-BY-SA-3.0 LegalEagle

ذکیہ سمن کا موقف ہے کہ بھارت میں مسلم خواتین بحیثیت قاضی بچپن میں کی جانے والی شادیوں کو روکنے کے علاوہ اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ آیا شادی میں عورت کی مرضی شامل ہے۔ مزید یہ کہ طلاق مفاہمت کی ایک مدت کے بعد اور منصفانہ شرائط پر دی جانی چاہیے۔ بھارت کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والی زیر تربیت خاتون قاضی صفیہ اختر کا کہنا تھا کہ اگر اس ملک میں خاتون وزیر اعظم اور پائلٹ بن سکتی ہے تو وہ قاضی کیوں نہیں بن سکتیں۔

بھارت میں مسلم پرسنل لاء کی نگرانی کرنے والی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے قاضی خواتین کے معاملے پر تنقید کی ہے۔ بورڈ کے سیکریٹری خالد رشید فرنگی موہالی کا تھومس روئیٹرز فاونڈیشن سے بات کرتے ہوئےکہنا تھا کہ خواتین کو قاضی بننے کا حق نہیں ہے اور یہ اس لیے بھی پوری طرح غیر ضروری ہے کیونکہ پہلے ہی کافی مرد قاضی موجود ہیں۔