1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کرکٹ بورڈ میں بنیادی تبدیلیوں کی سفارش

جاوید اختر، نئی دہلی5 جنوری 2016

جسٹس آر ایم لوڈھا کمیٹی نے تنازعات کے شکار بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈکو زیادہ شفاف، جوابدہ اور ہمہ گیر بنانے کے لیے متعدد بنیادی تبدیلیوں کی سفارش کی ہے، جن پر عملدرآمد کی صورت میں کرکٹ کی کایا پلٹ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HYAD
Melbourne ICC Cricket Weltmeisterschaft Indien vs Bangladesch
تصویر: Getty Images/R. Cianflone

بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ(بی سی سی آئی) دنیا کے مالدار ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ بورڈ نے سن دو ہزار گیار سے بارہ تک کی اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک بلین ڈالر کی آمدن کی تصدیق کی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ادارہ ہمیشہ سے تنازعات کا شکار بھی رہا ہے۔ بی سی سی آئی پر کرکٹ کو کھیل کے بجائے دولت بٹورنے کا ذریعہ بنا دینے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں کئی بڑے اسکینڈلز نے نہ صرف بورڈ اور کرکٹ کو بلکہ بھارت میں کرکٹ سے مذہب کی طرح عقیدت رکھنے والے کروڑوں شائقین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انڈین پریمیر لیگ(آئی پی ایل) میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے انکشاف کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ برس ریٹائرڈ جسٹس آر ایم لوڈھا کی صدارت میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے 159صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کردی ہے اور اگر عدالت عظمیٰ اس رپورٹ کی توثیق کردیتی ہے تو بی سی سی آئی میں متعدد غیر معمولی اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

جسٹس لوڈھا نے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس کی تیاری سے قبل بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی، کپل دیو، سوربھ گنگولی، سچن تندولکر، راہل دراوڑ اور انل کمبلے سمیت صحافیوں، پالیسی سازوں، تاریخ دانوں ، بورڈ کے اہلکاروں اور وکلاء سے بھی تفصیلی مشورے کئے اور اب یہ عدالت عظمیٰ کو فیصلہ کرنا ہے کہ بی سی سی آئی ان سفارشات کو ماننے کے لئے پابند ہے یا نہیں۔

کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ کرکٹ میں سٹے بازی کو جائز قرار دے دیا جائے کیوں کہ اس سے کرکٹ میں بدعنوانی کو روکنے میں مدد ملے گی اور کھلاڑیوں اور بورڈ کے افسران کو چھوڑ کر کسی کو بھی رجسٹرڈ ویب سائٹوں پر سٹہ لگانے کی اجازت دی جانی چاہئے۔کمیٹی نے تاہم میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ کوئی بھی عہدیدار صرف ایک عہدہ پر ہی فائز رہ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ بی سی سی آئی کے سکریٹری جنرل اور ہماچل کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر انوراگ ٹھاکر، بنگال یونٹ کے صدر اور بی سی سی آئی ٹیکنیکل پینل کے چئیرمین سوربھ گنگولی، کانگریسی ممبر پارلیمنٹ بی سی سی آئی کے نائب صدر اور آئی پی ایل گورننگ کونسل کے چئیرمین راجیو شکلا ، سابق کرکٹر دلیپ وینگسرکر کے علاوہ کئی دیگر عہدیداروں کو اپنا ایک ایک عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔

کمیٹی نے اپنی سفارش میں کہا ہے کہ بی سی سی آئی کے عہدیدار کے طور پر انتخاب لڑنے کے لئے بھارت کا شہری ہونا ضروری ہے۔ وہ پاگل یا دیوالیہ یا 70برس سے زیادہ عمر کا نہ ہو۔ وہ وزیر یا سرکاری افسر بھی نہ ہو۔ ساتھ ہی کرکٹ کے علاوہ کسی دوسرے اسپورٹس ایسوسی ایشن یا فیڈریشن کا رکن نہ ہو۔ عہدیداروں کی مدت تین برس ہوگی اور ایک مدت کے بعد کولنگ پیریڈ گزارنا ہوگا۔

صدر زیادہ سے زیادہ دو مدت تک ہی رہ سکتا ہے۔ مدت والی اس شرط سے سب سے بڑا نقصان سابق مرکزی وزیر اور بورڈ کے سابق صدر شرد پوار کو ہوگا، جو دو مدت تک صدر رہ چکے ہیں۔گوکہ موجودہ بورڈ میں کوئی وزیر عہدیدار کے طور پر شامل نہیں ہے تاہم ماضی میں متعدد مرکزی اور ریاستی وزراء بورڈ کے عہدیدار رہ چکے ہیں اور اب ایسے وزراء دل مسوس کر رہ جائیں گے۔

بی سی سی آئی میں شفافیت لانے کے لئے کمیٹی نے اسے حق اطلاعات قانون کے دائرہ میں لانے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ بورڈ ایک عوامی ادارہ ہے، اس لئے عوام کو اس کے کام کاج کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ کمیٹی نے مفادات میں ٹکراؤ کے معاملے پر بھی توجہ دی ہے اور شکایات و داخلی تنازعات کے حل کے لئے ایک لوک پال(محتسب)کی سفارش کی ہے۔ علاقائی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ریاست کو صرف ایک ہی کرکٹ ایسوسی ایشن اور ایک ہی ووٹ کا حق دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

کمیٹی نے کھلاڑیوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے کھلاڑیوں کی اسٹیئرنگ کمیٹی بنانے کی سفارش کی ہے تاکہ بورڈ کے کام کاج کے سلسلے میں کھلاڑی بھی اپنی بات رکھ سکیں۔ اب تک کھلاڑیوں کو یہ بڑی شکایت رہی ہے کہ بورڈ ان سے صلاح مشور ہ کئے بغیر ہی کرکٹ کے سلسلے میں اہم فیصلے کردیتا ہے۔کمیٹی میں 1983ء ورلڈ کپ کے ہیرو مہندر امرناتھ، مشہور اسپنر انل کمبلے اور سابق خاتون کرکٹر ڈائنا ایڈولجی کو شامل کیا گیا ہے۔

جسٹس لوڈھا نے کہا کہ آج بھارتی کرکٹ میں صرف دکھاوے کی نہیں بلکہ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو ایک ٹھوس بنیاد رکھ سکے جس پر بی سی سی آئی پیشہ ورانہ اور شفاف انداز میں کام کر کے کرکٹ کی عظمت رفتہ کو واپس لاسکے تاکہ اس کھیل پر عوام کا اعتماد پھر سے بحال ہو سکے۔ متعدد سابق کرکٹ کھلاڑیوں نے ان سفارشات کا خیرمقدم کیا ہے تاہم بی سی سی آئی کے موجودہ عہدیداروں نے ابھی اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔