1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کشمیر: ممکنہ خود کُش حملوں سے نمٹنے کی تیاریاں

22 اکتوبر 2010

امریکی صدر باراک اوباما کے اوائل نومبر میں مجوزہ دَورہء بھارت کے تناظر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ممکنہ خود کُش حملوں کے خدشے کے پیشِ نظر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کو انتہائی چوکنا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Pl3O
سرینگر: بھارتی فوجی گشت پرتصویر: AP

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنی اِس رپورٹ کے لئے بھارتی ٹیلی وژن چینل این ڈی ٹی وی کا حوالہ دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات اور حکام کے علم میں آنے والے عسکریت پسندوں کے باہمی رابطوں کی روشنی میں اوباما کے دورے سے پہلے اِس طرح کے حملے عمل میں لانے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کے اشارے مل رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سکیورٹی حکام نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ عسکریت پسند فوج اور سکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایسی بھی خبریں مل رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ عسکریت پسند بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو رہے ہیں۔ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور سینئر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

US-Präsident Barack Obama in Indien
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ وائٹ ہاؤس میں ایک ڈنر میں امریکی صدر باراک اوباما کے ہمراہ۔ نومبر کے اوائل میں اوباما بھارت کا دورہ کرنے والے ہیںتصویر: AP

عبداللہ نے کہا، ’2006ء میں جورج ڈبلیو بُش کے دورے کے دوران کوئی بڑا واقعہ رُونما نہیں ہوا تھا۔ ایک بڑا واقعہ اُس وقت ہوا تھا، جب صدر کلنٹن نے بھارت کا دورہ کیا تھا‘۔ عبداللہ نے مارچ 2000ء میں کشمیر کے چھتی سنگھ پورہ میں کم از کم 35 سکھوں کی مسلمان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’ہمارا نہیں خیال کہ صدر اوباما کے دورے کے دوران اِس طرح کے واقعات رُونما ہوں گے۔ ہم بہرحال مناسب اقدامات کر رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے جمعرات کو جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کے قریب سکیورٹی فورسز کے ساتھ دَس گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک جھڑپ کے دوران پاکستان میں قائم کالعدم جَیشِ محمد سے تعلق رکھنے والے کم از کم دو عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ لیفٹیننٹ کرنل جے ایس برار نے بتایا کہ سری نگر کے نواح میں واقع مالُورا نامی گاؤں میں مشتبہ باغیوں کے چھپے ہونے کی اطلاع ملنے پر فوج اور پولیس کے سپاہیوں نے اِس گاؤں کے ایک حصے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ برار نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران اِن سپاہیوں کی معیت میں سینکڑوں دیہاتیوں کو گاؤں سے بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔

Indien Kaschmir Unruhe Islamische Rebellen
2008ء کی اِس تصویر میں جموں و کشمیر کے ایک علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف مورچہ بند بھارتی فوجیتصویر: AP

اِس سال جنوری کے بعد سے سری نگر یا اُس کے نواح میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ سکیورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپ عسکریت پسندوں کی اُس حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس میں بین الاقوامی برادری کی توجہ مسئلہء کشمیر کی جانب مبذول کروانے کے لئے اوباما کے دورے کے دوران اِس طرح کی کارروائیاں بڑھ چڑھ کر کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

اُدھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیری علٰیحدگی پسندوں کو نئی دہلی میں ’بھارت مخالف‘ تقاریر کرنے کی اجازت دینے پر مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بی جے پی کے سرکردہ رہنما اور راجیہ سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف ارون جیٹلی نے کہا کہ آزادیء اظہار کی بھی کوئی قانونی حدود ہوتی ہیں جبکہ جمعرات کو نئی دہلی منعقدہ ایک سیمینار میں علٰیحدگی پسند کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور دیگر مقررین ملک توڑنے کی باتیں کرتے رہے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں