بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحدی آبادیاں
10 اپریل 2011ممکنہ طور دونوں طرف کی آبادیوں کو ادل بدل کے معاملہ حل کر لیا جائے گا تاہم اس وقت تو یہ آبادیاں ایک عجیب و غریب منظر پیش کر رہی ہیں۔ بھارت میں بنگلہ دیشی آبادیاں موجود ہیں تو یہی صورتِ حال بنگلہ دیش میں ہے، جس کی سرحد کےاندر بھارتی آبادیاں قائم ہو گئی ہیں۔
ان بستیوں میں رہنے والے زیادہ تر افراد بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ ان کے پاس نہ بجلی ہے، نہ ہسپتال اور نہ ہی اسکول۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنی حکومتوں سے کٹی ہوئی بستیاں ہیں۔
زیادہ تر مورخین کی رائے ہے کہ یہ صورتِ حال اٹھارویں صدی میں کوچ بہار، جو کہ اب مغربی بنگال ہے، اور مغل حکمرانوں کے درمیان سرحدی معاہدوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ تاہم لوک داستانوں کے مطابق آبادیوں کی یہ غیر مساوی تقسیم کوچ بہار کے مہاراجہ اور رنگ پور کے حکمرانوں کے درمیان شطرنج پہ لگی بازیوں کے نتیجے میں ہوئی تھی۔
چھیالیس سالہ رحمان رضا ایسی ہی ایک بنگلہ دیشی بستی کا باسی ہے جو کو بھارتی سرحد کے اندر ہے اور جس میں پندرہ ہزار کے قریب افراد رہتے ہیں۔ رحمان رضا کا کہنا ہے: ’میرے ماں باپ کی نسل سے کوئی شخص کبھی اسکول نہیں گیا جب کہ دیگر بستیوں کے رہنے والے بغیر بجلی اور بغیر کسی قانونی حق کہ ان بستیوں میں رہ رہے ہیں‘۔
دونوں اطراف کی ان بستیوں میں رہنے والوں کی تعداد کا درست تعین تو مشکل ہے تاہم ایک اندارے کے مطابق ان میں ڈیڑھ سے تین لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔
ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر اکمل حسین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرلیا جائے چونکہ انیس سو پچھتر کے بعد سےاس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہترین سطح پر ہیں۔
واضح رہے کہ ان بستیوں میں اور ان کے ارد گرد رہنے والے سبھی افراد بنگالی ہیں چاہے وہ بھارتی شہریت رکھتے ہوں یا پھر بنگلہ دیشی شہریت۔ یہ ایک ہی زبان بولتے ہیں اور اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مسلمان ہیں یا ہندو۔
نئی دہلی اور ڈھاکا میں سرکاری اہلکار اب بنگلہ دیشی سرحد کے اندر ایک سو گیارہ بھارتی بستیوں اور بھارتی سرحد کے اندر پچپن بنگلہ دیشی بستیوں کے معاملے پر ایک سمجھوتے پر غور کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اس ضمن میں سروے بھی کرانا شروع کردیے ہیں تاکہ ان افراد اور بستیوں کی تقسیم ملکی حوالے سے کی جا سکے۔ تاہم ایسا کرنے میں کچھ سیاسی مشکلات بھی ہیں۔ بھارتی بستیوں کی تعداد بنگلہ دیشی سرحد کے اندر بنگلہ دیشی بستیوں کی بھارتی سرحد کے اندر تعداد سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی ہندو قوم پرست جماعت کو خدشہ ہے کہ بھارت میں شامل ہونے کی صورت میں ان علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ کچھ ایسے ہی مسائل بنگلہ دیش میں بھی ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق