1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات

21 جنوری 2010

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن نے اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ چینی ہیکرز نے گزشتہ برس 15 دسمبر کو ان کے ادارے سمیت ملک کے کئی اور دیگر اداروں کے کمپیوٹرز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

https://p.dw.com/p/LdAs
چینی وزیر اعظم ہو جن تاو اور بھارتی وزیر تجارت و صنعت کمال ناتھتصویر: AP

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن نے اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ چینی ہیکرز نے گزشتہ برس 15 دسمبر کو ان کے ادارے سمیت ملک کے کئی اور دیگر اداروں کے کمپیوٹرز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ ایم کے نارائنن کے اس دعویٰ کے ساتھ ہی ایشیا کے دو بڑے روایتی حریفوں میں ایک سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

ایم کے نارائنن کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارتی اداروں کے کمپیوٹرز کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اس طرح کے حملوں کی کوششیں ماضی میں بھی کی جاچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیک کرنے کی یہ کوشش ایک ای میل کی صورت میں پی ڈی ایف فائل کےساتھ منسلک خصوصی کوڈ کے ذریعے کی گئی۔ نارائنن کے مطابق اس ای میل میں Trojan نامی ایک وائرس تھا۔

اس وائرس کے ذریعے ہیکردنیا بھر میں کہیں بھی بیٹھ کر وائرس سے متاثرہ کمپیوٹر تک رسائی حاصل کر کے اس کی فائلیں اور ڈیٹا نہ صرف اپنے پاس ڈاون لوڈکر سکتا ہے بلکہ انہیں تلف بھی کرسکتا ہے۔ نارائنن کا کہنا تھا کہ وائرس کا پتہ لگنے پر متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ اُس وقت تک کمپیوٹرز استعمال نہ کریں جب تک اس وائرس کا خاتمہ نہ کردیا جائے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نارائنن کے مطابق یہ بات وثوق سے تو نہیں کی جاسکتی کہ وائرس کہاں سے بھیجا گیا لیکن عوام کو یقین ہے کہ یہ چین کی طرف سے تھا۔

Six members of the Indian Army team successfully summitted Mount Dhaulagiri, the seventh highest peak in the world.
چین اور بھارت کے تعلقات ہمالیہ کے سرحدی تنازعے کے باعث ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔تصویر: UNI

انہوں نے کہا کہ ان کا ملک برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مل کراپنے اپنے کمپیوٹر نظام پر ہونے والے حملے سے بچاؤ یعنی Cyber Defence کے لئے کام کر رہا ہے۔ گزشتہ سال 15 دسمبر کو ہونے والے اس حملے میں نہ صرف بھارت کے مختلف اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی بلکہ Google سمیت اس حملے کا نشانہ امریکہ کی دفاعی، مالیاتی اور ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی تھیں۔ چین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملوں میں اُس کا کوئی کردار نہیں۔

چینی دفتر خارجہ کے ترجمان Jiang Yu کے مطابق ان کے ملکی قانون میں کسی بھی طرح کی ہیکنگ ممنوع ہے۔ اس وضاحت کے باوجود ہیکنگ کا یہ مسئلہ چین اور بھارت کے تعقات میں کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات ہمالیہ کے سرحدی تنازعے کے باعث ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 1962 میں اس تنازعے کی وجہ سے ایک جنگ بھی ہو چکی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کی سی کیفیت رہی ہے لیکن اس جنگ میں گزشتہ سال ہونے والے ہیکرز کے اس حملے کے بعد سے شدت آ گئی تھی۔

بھارت نے اس حملے کے بعد اپنی مشرقی سرحدوں پر مذید دو ڈویژن فوج اور لڑاکا طیارے بھیج دیئے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان صرف سرحدی تنازعہ اور ہیکرز حملہ ہی باعثِ نزاع نہیں بلکہ چین کے پاکستان سے قریبی تعلقات بھی نئی دہلی کے لئے باعث تشویش ہیں۔ میانمار، سری لنکا اور افغانستان میں بڑھتا ہوا چینی اثرورسوخ بھی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا جبکہ نئی دہلی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بحرِہند میں چین اس کی بحری طاقت کو چیلنج کر رہا ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بالعموم اور گزشتہ چند برسوں میں بالخصوص امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں بہت گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکہ نے 2008 میں بھارت کو جوہری مواد کی فراہمی سے متعلق پابندی اٹھالی، جس کے بعد امکان ہے کہ واشنگٹن اربوں ڈالر کے ہتھیار دنیا کی سب بڑے جمہوری ملک بھارت کو بیچے گا۔ یہ ساری صورتِ حال چین کے لئے پریشان کن ہے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: افسر اعوان