1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: راجیہ سبھا سے خواتین کا بل منظور

9 مارچ 2010

پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 33 فیصد نشستیں مختص کرنے سے متعلق بل پر منگل کو راجیہ سبھا میں ووٹنگ کا عمل ہنگاموں کے باعث بڑی حد تک متاثر ہوا تاہم بعدازاں یہ وائس یعنی صوتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/MO3r
راجیا سبھا کے باہر خواتین بل کے حق میں نعرے بازیتصویر: UNI

اس تاریخی بل کے منظور ہونے سے ملکی خواتین کے لئے قومی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد نشستیں مخصوص ہو جائیں گی۔ تاہم اس بل کو قانون بننے میں ابھی بعض اور سخت مراحل سے گزرنا ہوگا۔ بل کی منظوری کے لئے آئینی ترمیم کے ساتھ ساتھ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت بھی مطلوب ہے۔ اس کے علاوہ اسے ریاستی اسمبلیوں کے تقریباً پچاس فیصد اراکین کی حمایت بھی درکار ہو گی۔

Vize President Hamid Ansari Indien Wahl
بھارت کے نائب صدر حامد انصاریتصویر: AP

راجیہ سبھا میں ارکان کی دو تہائی اکثریت نے وائس ووٹ کے ذریعے اس بل کی حمایت کی، لیکن جب ووٹنگ کا آغاز ہوا تو بعض اراکین نے زبردست ہنگامہ کیا۔ ہنگامے اور شور شرابے کے بعد راجیہ سبھا کے چیئرمین اور ملک کے نائب صدر حامد انصاری نے سات اراکین کی رکنیت کو ان کے نامناسب رویے کے باعث معطل کر دیا۔ بعد ازاں سیکیورٹی کی مدد سے ہنگامہ کر نے والے ان ارکان کو ایوان سے باہر کر دیا گیا۔

منگل کو بعد دوپہر جب راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کے لئے اجلاس شروع ہوا تو چیئرمین حامد انصاری نے حزب اختلاف کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ارون جیٹلی کو خطاب کرنے کی اجازت دی۔ خواتین کے لئے نشستوں کی ریزرویشن کی مخالفت کرنے والے بعض اراکین جیٹلی کی تقریر کے دوران نعرہ بازی کرتے رہے۔ زبردست شور شرابے کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس لیڈر کو پوری طرح سے بولنے کا موقع بھی نہ ملا۔

Indien Arun Jaitley von Bharatiya Janata Party
ارون جیٹلیتصویر: AP

راجیہ سبھا کے سپیکر نے ہنگامہ آرائی کے باوجود بل پر اراکین کی رائے پوچھی، جس پر اکثریت نے بلند آواز میں اس کی حمایت کر دی۔ منظوری کے بعد اس مسودہ قانون پر دوبارہ بحث شروع ہوئی۔

پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے تینتیس فیصد نشستیں مختص کرنے کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے منگل کی صبح بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کی تھی، لیکن نہ تو اختلافات کم ہوئے اور نہ ہی تنازعہ حل ہو سکا۔ مخالفین کا مطالبہ تھا کہ ریزرویشن بل کی منظوری سے پہلے کل جماعتی اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

Indien Parlament Frauenrechte März 2010
سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو اور راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر لالو یادوتصویر: UNI

موجودہ شکل میں اس ریزرویشن بل کی مخالفت کرنے والوں میں راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو، سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو اور جنتادل یونائیٹڈ کے شرد یادو شامل ہیں۔ ان رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ وہ دراصل ریزرویشن بل کی مخالفت نہیں کر رہے لیکن اس میں دلتوں، مسلمانوں اور ملک کے دیگر پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی شمولیت بھی چاہتے ہیں۔ کانگریس، بی جے پی اور لیفٹ جماعتوں کا کہنا ہے کہ بل کی منظوری کے بعد اس میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔

Congress President Sonia Gandhi greeting people at a rally at Parade Ground in Dehradun
کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھیتصویر: UNI

یہ بل گزشتہ چودہ برسوں سے متنازعہ رہا ہے۔ بھارت میں کئی سیاسی جماعتیں اس بل کی مخالف ہیں لیکن حکمران کانگریس پارٹی، سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کے سیاست دان پارلیمان میں عورتوں کے مخصوص کوٹے کی حمایت کرتے ہیں۔

545 نشتسوں پر مشتمل بھارتی پارلیمنٹ میں اس وقت 59 اراکین خواتین ہیں جبکہ 250 نشستوں والے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اکیس خواتین ممبر ہیں۔ ایک ارب دس کروڑ نفوس پر مشتمل ملک بھارت کی صدر پرتیبھا پاٹل ہیں، جو کہ ایک خاتون ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی ہیں جبکہ مایا وتی، ممتا بینرجی، اُما بھارتی، سُشما سوراج، وسندھرا راجے سمیت کئی اہم خواتین سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں