1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں انتخابات، ’نوٹ کے بدلے ووٹ‘

افتخار گیلانی، نئی دہلی1 اپریل 2009

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کہلانے والے بھارت میں یوں تو صا ف شفاف انتخابات کرانے کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں پیسے کے ذریعہ ووٹوں کی خریداری کی لعنت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/HORr
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی انتخابی جلسے میں نعرے لگاتے ہوئےتصویر: picture-alliance / dpa

الیکشن کمیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود مجرم قانونی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران پیسے تقسیم کرکے مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کا تازہ الزام سابق وزیرخارجہ اور بی جے پی کے سینئر رہنما جسونت سنگھ کے اوپر عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے مبینہ طورپر اپنے بیٹے مانویندر سنگھ کے حلقہ انتخاب، راجستھان میں باڑ میر کے ایک گاوں میں انتخابی جلسے کے دوران لوگوں میں پیسے تقسیم کئے۔ الیکشن کمیشن اب اس واقعہ کی انکوائری کررہا ہے لیکن اس واقعہ کے بعد بی جے پی کی حریف کانگریس پارٹی کو بہر حال ایک موقع ہاتھ آگیا ہے اور اس نے بی جے پی پر پیسے کے ذریعہ ووٹ خریدنے کا الزام عائد کیا ہے۔

کانگریس کی ترجمان جینتی نٹراجن نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا :’’جسونت سنگھ نے ابھی تک اس الزام کی تردید بھی نہیں کی ہے اور وہ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ یہ ان کے خاندان کی روایت ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔‘‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الیکشن کے دوران کسی لیڈر پر لوگوں میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام لگا ہو۔ خود کانگریس پارٹی بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور فلم اداکار گووندا پر بھی چند دنوں پہلے ہی اس طرح کا الزام لگ چکا ہے۔ اس سے پہلے سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو کے خلاف بھی ووٹروں میں پیسہ بانٹنے کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی جاچکی ہے۔

چند سال قبل بی جے پی کے سینئر رہنما اور اترپردیش کے صدر لال جی ٹنڈن نے انتخابی مہم کے دوران عورتوں میں ساڑیاں تقسیم کی تھیں جس میں بھگدڑ مچ جانے سے کئی عورتیں اور بچے ہلاک ہوگئے تھے۔

Präsidentenwahlen in Indien
بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، جسونت سنگھ کے ساتھتصویر: AP

بھارتی سنٹر فار میڈیا اسٹڈیزکے ایک حالیہ سروے کے مطابق یہ لعنت کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں عام ہے۔ حتی کہ ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاستیں بھی اس سے اچھوتی نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے مشہور جنوبی ریاست کرناٹک تو اس معاملے میں سرفہرست ہے اور 2008 کے اسمبلی انتخابات کے دوران وہاں پیسے کی تقسیم کا ریکارڈ ہی قائم ہوگیا۔ تمل ناڈواور آندھراپردیش جیسی خواندہ ریاستوں میں بھی یہ برائی عام ہے۔ان ریاستوں میں 40 فیصد سے زائد ووٹر ووٹ دینے کے بدلے پیسے لیتے ہیں۔کرناٹک میں پچھلے اسمبلی انتخابات کے دوران پولیس نے 28 کروڑ روپے ضبط کئے تھے جسے ووٹروں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ جو سب کے سب 500 یا 1000روپے کے نوٹوں پر مشتمل تھے جس کامطلب یہ ہے کہ ہر ووٹر یا خاندان کو ووٹ دینے کے بدلے کم سے کم 500 روپے بانٹے گئے۔

حالانکہ الیکشن کمیشن اس طرح کی بدعنوانیوں پر سخت نگاہ رکھتا ہے اور شکایت ملنے پر اس کے خلاف کارروائی بھی کرتا ہے لیکن سیاست داں اور لیڈرمقامی رسوم و رواج وغیرہ کا حوالہ دے کر قانونی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جسونت سنگھ کے خلاف شکایت پر بی جے پی کے ترجمان سدھارت سنگھ نے بھی کچھ اسی طرح کی دلیل دی۔ انہوں نے کہا : ’’جسونت سنگھ نے یہ پیسے ایک بیمار خاتون کو اس کی بچی کے علاج کے لئے دئے تھے اور یہ کہ ان کے گاؤں کی یہ روایت ہے کہ جب کوئی جماعت انتخابی مہم کے دوران وہاں پہنچتی ہے تو مقامی لوگ گیت گا کر اس کا استقبال کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں کچھ ہدیہ دیا جاتا ایسا نہ کرنے پر وہ برا مانتے ہیں۔‘‘

سدھارت سنگھ نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے جسونت سنگھ یا پارٹی کو کوئی نوٹس ملا تو بہر حال اس کا جواب دیا جائے گا۔

سنٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عام انتخابات کے دوران تقریبا دس ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے کا اندازہ ہے اور اس کے ایک چوتھائی کا کوئی حساب نہیں رکھا جائے گا۔