1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں بم حملے: قوم پسند بی جے پی دباؤ میں

11 جنوری 2011

بھارت میں یہ اسکینڈل مسلسل پھیلتا جا رہا ہے کہ ملک میں ہونے والے متعدد بم حملوں میں ایسے ہندو عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جن کا تعلق نظریاتی طور پر اپوزیشن کی بڑی جماعت کی رہنمائی کرنے والی تنظیم سے ہے۔

https://p.dw.com/p/zw2f
سوائم سیوک سنگھ کے کارکنتصویر: UNI

یہ اسکینڈل یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسی سال چند بہت اہم بھارتی ریاستوں میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل کس طرح حکمران کانگریس پارٹی اور اپوزیشن کی مرکزی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک دوسرے پر شدید تر سیاسی حملے کرنے میں مصروف رہیں تھیں۔

نئی دہلی میں موجودہ حکمران اتحاد میں شامل بڑی جماعت کانگریس پارٹی کو ان دنوں اپنے خلاف بدعنوانی اور رشوت کے کئی الزامات کا سامنا ہے اور ان اسکینڈلوں نے اس کی عوامی مقبولیت کو بھی واضح طور پر متاثر کیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم من موہن سنگھ کی کانگریس پارٹی اب یہ امید بھی لگائے بیٹھی ہے کہ وہ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کو درپیش مشکل حالات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے۔

Manmohan Singh
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ: فائل فوٹوتصویر: UNI

امید کی وجہ وہ حالیہ رپورٹ بنی جس کے مطابق متعدد بم حملوں میں ملوث ہندو عسکریت پسندوں کا تعلق مبینہ طور پر اس تنظیم سے ہے، جو قوم پسندانہ نظریات کی حامل سیاسی جماعتن بی جے پی کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔

بھارت ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے لیکن اس وقت سیاسی طور پر وہاں جو کچھ بھی داؤ پر لگا ہے، اس کی قیمت انتہائی حد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔ کانگریس پارٹی اپنی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کی پارلیمانی اکثریت کے لیے مغربی بنگال سے لے کر تامل ناڈو تک کئی علاقائی سیاسی جماعتوں پر انحصار کرتی ہے۔

اسی لیے ان ریاستوں کے الیکشن میں کانگریس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کو اگر کوئی نقصان اٹھانا پڑا، تو من موہن سنگھ کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کی 2014 میں ہو نے والے قومی انتخابات سے قبل خود کو ایک کامیاب سیاسی اتحاد کے طور پر یکجا رکھنے کی اہلیت کو بڑا دھچکہ پہنچے گا۔

ان حالات میں بھارتیہ جنتا پارٹی بھی مستقبل قریب پر آنکھ لگائے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر بی جے پی نے اعلان کیا کہ وہ کانگریس کی صفوں میں پائی جانے والی مبینہ بدعنوانی کو آئندہ الیکشن میں اپنا مرکزی موضوع بنائے گی۔

ہندو قوم پسندوں کی جماعت بی جے پی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ اسے کانگریس پارٹی کے خلاف بدعنوانی کے اسکینڈل سے اپنے لیے انتخابی کامیابی کی امید ہونے لگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں 39 بلین ڈالر مالیت کی، ٹیلی کوم کے شعبے میں ایک بہت بڑی سرکاری نیلامی کے حوالے سے سامنے آنے والے اسکینڈل کو بی جے پی نے اتنا اچھالا کہ کانگریس کی اتحادی تامل ناڈو کی ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی وزیر کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ وزیر کی رخصتی سے نئی دہلی میں قائم مخلوط مرکزی حکومت کو بہرحال ایک بڑا جھٹکا تھا۔

BJP leader L K Advani
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم لیڈر لا ل کرشن ایڈوانی: فائل فوٹوتصویر: UNI

کانگریس پارٹی کے ‌خلاف بدعنوانی کے انہی الزامات کو بنیاد بنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ برس ملکی پارلیمان کے متعدد اجلاسوں کو باقاعدہ مفلوج بنائے رکھا تھا۔ لیکن اب کانگریس پارٹی کے ہاتھ بھی ایک ایسا تیر آ گیا ہے، جس سے بی جے پی کو الیکشن میں کافی نقصان ہو سکتا ہے۔

بھارت میں اب ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ملک میں وہ کئی بم دھماکے، جس کے الزام شروع میں اسلام پسندوں پر لگائے گئے تھے، مبینہ طور پر راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS کے انتہا پسندوں کی کارروائی تھے، جو کہ نظریاتی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یہ کہنا تو فی الحال بہت مشکل ہے کہ کانگریس پارٹی اور بی جے پی کو ایک دوسرے کے خلاف اونچی آواز میں کہنے کے لیے اب جو کچھ ہاتھ آ چکا ہے، اس سے کون زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ بھارت میں اسی سال ریاستی الیکشن کے دوران انتخابی جنگ سیاسی پروگراموں کے ساتھ ساتھ اسکینڈلوں کی بنیاد پر بھی لڑی جائے گی۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں