1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جنسی حملوں کا مسئلہ کس حد تک شدید ہے؟

عاطف توقیر
10 نومبر 2017

بھارت میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر جنسی حملے کرنے والوں کی ایک فہرست جاری ہوئی، جن میں مختلف جامعات کے پروفیسر بھی شامل تھے۔ اس سے ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ خواتین پر جنسی حملوں کا مسئلہ کس قدر شدید ہے۔

https://p.dw.com/p/2nPpC
Vergewaltigungsfälle in Indien
تصویر: picture alliance/AP Photo

انٹرنیٹ پر ہیش ٹیگ می ٹو (#MeToo) مہم شروع ہوئی، جس میں دنیا بھر کی خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے تجربات بانٹے اور اس فہرست میں بھارت کی مختلف خواتین نے ان درجنوں پروفیسروں، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کے نام بھی لیے، جنہوں نے انہیں ’جنسی طور پر ہراساں‘ کیا۔

نئی دہلی، ’خواتین کے مصائب کم نہ ہوئے‘

بھارت میں سو سالہ خاتون کا ریپ، معمر خاتون انتقال کر گئیں

بھارت میں سوئس سیاحوں کی بری طرح پٹائی

ان الزامات کے بعد ایک طرف تو ان مبینہ واقعات میں ملوث افراد کی مذمت ہو رہی ہے، تاہم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بعض حلقے یہ بھی کہتے ملتے ہیں کہ اداروں کے اندرونی نظام کو نظرانداز کرتے ہوئے اس طرح پروفیسروں اور دیگر پیشہ ور افراد کو نشانہ بنانے کے برے نتائج نکل سکتے ہیں اور اس سے معاشرے میں جنسی بنیادوں پر عدم مساوات کو طویل المدتی بنیادوں پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کو رپورٹ کرانا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جنسی جرائم کی بابت رپورٹ درج کراتے ہوئے بھارتی ہسپتالوں اور تھانوں میں خواتین کو ’تذلیل‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض پولیس اہلکار ایسی شکایات درج کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق عدالتوں میں بھی متاثرہ افراد کو ’نازیبا تہمتوں‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکا میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی والی بھارتی نژاد طالبہ رایا سرکار نے فیس بک پر ایک بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن انجی پینو کی مرتب کردہ فہرست جاری کی، جس میں ان ساٹھ بھارتی پروفیسروں کے نام تھے، جو مبینہ طور پر ایسے حملوں میں ملوث رہے اور جو اب بیرون ملک مقیم ہیں۔

پینو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اس بابت بات کرنا ضروری ہے اور یہ فہرست بہت سی باتیں واضح کر رہی ہے۔ موجودہ عمل جنسی تشدد یا عدم مساوات پر مبنی معاملات کی بابت کم زور ہے۔ میرے لیے یہ بات بے سود ہے کہ اس بابت صرف اور صرف رائج نظام پر تکیہ کیا جائے۔‘‘

جسم فروشی پر مجبور فلپائنی بچیاں

اس فہرست کے سامنے آنے کے بعد کئی خواتین نے اس میں کئی ناموں کا اضافہ کیا ہے، جن میں فلم ساز نشتا جین جیسی معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی متعدد بھارتی خواتین جنسی حملوں اور ہراساں کیے جانے کی بابت شکایت درج کرانے کے پیچیدہ اور ناقص عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔  رایا سرکار نے بھی ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر رائج عمل درست انداز سے کام کر رہا ہوتا، تو شکایت کنندہ خواتین اس عمل کا سہارا لیتیں اور انہیں یوں عوامی سطح پر آکر اپنی شکایات اس فہرست کے ذریعے درج کرانے کی راہ اختیار نہ کرنا پڑتی۔