1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سوئس سیاحوں کی بری طرح پٹائی

جاوید اختر، نئی دہلی
26 اکتوبر 2017

آگرہ میں تاج محل سے کچھ ہی دوری پر واقع فتح پور سیکری میں ایک سوئس جوڑے کو بری طرح مارا پیٹا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد بھارت میں غیر ملکی سیاحوں کی سلامتی پر ایک بار پھر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mYHu
Taj Mahal
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس واقعے کا فوراً نوٹس لیتے ہوئے اترپردیش کی یوگی آدیتیہ ناتھ حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ دوسری طرف وزیر سیاحت کے جے الفونس نے سوئٹزرلینڈ کے شہریوں کے ساتھ مار پیٹ کی اس واردات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کے امیج پر منفی اثر پڑتا ہے اور بھارت کو سیاحوں کے لئے پرکشش مقام کے طور پر پیش کرنے کی حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
اطلاعات کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے لوزانے شہر کے 24 سالہ کوئنٹن جرمی کلارک اپنی ہم عمر خاتون دوست ماری ڈروز کے ساتھ آگرہ میں محبت کی علامت تاج محل دیکھنے کے بعد وہاں سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور تاریخی مقام فتح پور سیکری گئے تھے۔ فتح پور سیکری میں تاریخی بلند دروازہ ہے جسے مغل بادشاہ اکبر نے سولہویں صدی میں تعمیرکرایا تھا۔گوکہ یہ تاج محل کی طرح مشہور نہیں ہے لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔

خواتین پر جنسی حملے، دنیا کے بدترین شہر یہ ہیں
فتح پور سیکری کی مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کلارک اور ڈروز فتح پور سیکری میں ریلوے اسٹیشن کے نزدیک گھوم رہے تھے کہ مقامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور ان پر فقرے کسنے لگے۔ کلارک کی مخالفت کے باوجود ان لڑکوں نے پیچھا کرنا بند نہ کیا اور ان کی مسلسل تصویریں اتارتے رہے جبکہ انہوں نے لڑکی ڈروز کے اپنی گرفت میں لینے کی بھی کوشش کی۔ جب کلارک نے ان لوگوں کو سمجھانا چاہا تو یہ لوگ ان دونوں پر ٹوٹ پڑے۔

پولیس کے مطابق ان دونوں کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ اس سے کلارک کا سر پھٹ گیا اور ڈروز کو بھی کافی چوٹیں آئیں۔ دونوں خون میں لت پت سڑک پر گر پڑے۔ پولیس کے مطابق وہاں سے گذرنے والے نے بھی ان دونوں کی مدد کرنے کے بجائے موبائل سے ان کی تصویریں بناتے رہے۔
مقامی پولیس کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہیں تھانے لے گئی۔ دونوں کو بعد میں علاج کے لئے دہلی کے اپولو ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ اپولو اسپتال کے نیورو سرجن ڈاکٹر راجندر پرساد کے مطابق کلارک فی الحال آئی سی یو میں ہیں۔ انہیں سماعت میں بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ان کی قوت سماعت ہمیشہ کے لئے متاثر ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر پرساد کے مطابق ڈروز کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے۔ گوکہ انہیں ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے لیکن وہ فی الحال اپنے دوست کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ واردات کے بعد سے سوئس جوڑا صدمے میں ہے۔
اس دوران وزارت خارجہ کے افسران نے ہسپتال جا کر سوئٹزرلینڈ کے جوڑے کی خیریت دریافت کی۔ وزیر خارجہ سشما سوراج بھی ان سے ملاقات کے لئے جانے والی ہیں۔ پولیس نے واردات کے بعد مقدمہ درج کر لیا ہے اور چار ملزمین میں سے ایک کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔
بھارت میں سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی اور زدوکوب کا یہ معاملہ پہلا نہیں ہے۔ اکثر ایسے واقعات خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ 2014ء   میں آگرہ کے ہی ایک ہوٹل منیجر پر ایک جرمن خاتون کے ساتھ دست درازی کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سن 2007 میں آگرہ میں ہی دو جاپانی سیاحوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔ گزشتہ ہفتے دہلی میں ایک غیر ملکی طالب علم کے ساتھ جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ دارالحکومت میں ہی گزشتہ سال ایک بیلجین خاتون کے ساتھ دست درازی کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ اس سال کے اوائل میں ڈنمارک کی ایک خاتون کے ساتھ لوٹ مار اور  عصمت دری کے واقعے کے بعد غیر ملکی سیاحوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداو شمار کے مطابق غیر ملکی سیاحوں کے لئے دہلی سب سے غیر محفوظ شہر ہے۔ 2014ء میں غیر ملکیوں کے ساتھ سنگین جرائم کے 164 مقدمات درج کئے گئے تھے۔ گوا میں 73 اترپردیش میں 66 اور راجستھان میں 59 مقدمات درج ہوئے تھے۔2014ء میں تین غیر ملکی سیاحوں کو اغوا بھی کر لیا گیا تھا۔
ایک مقامی ٹور آپریٹر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے سیاحوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور بالخصوص خاتون سیاح دہلی آنے سے ڈرتی ہیں۔ دہلی کے ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ غیر ملکی شہریوں کو اس لئے آسانی سے نشانہ بنا لیا جاتا ہے کیوں کہ وہ شہر سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا،  ’’ہم غیر ملکیوں کے خلاف کسی بھی کیس پر ترجیحی بنیاد پرکارروائی کرتے ہیں اور اسے جلد سے جلد حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ہر غیر ملکی کی سلامتی کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘