1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں عام انتخابات ، تیسرے مرحلے کی پولنگ

افتخار گیلانی، نئی دہلی30 اپریل 2009

بھارت میں پندرہویں لوک سبھا کے لئےعام انتخابات کے تیسرے اور اہم مرحلے کے تحت نو ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں کے 107 پارلیمانی حلقوں میں جمعرات کے دن پولنگ ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/HggT
وزیر اعظم من موہن سنگھ اپوزیشن رہنما لال کرشن ایڈوانی کے ساتھتصویر: AP

تیسرے مرحلے کی پولنگ میں 144ملین ووٹر1567 امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ ان میں حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئرپرسن اور کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی ‘ اپوزیشن بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار لال کرشن اڈوانی‘ سابق وزیر اعظم اور جنتا دل سیکولر کے رہنما اےچ ڈی دیوے گوڑا‘ جنتا دل یونائیٹڈ کے صدر شرد یادو‘ سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ‘ سید شہنواز حسین سمیت متعدد وزراء اور سابق وزراء شامل ہیں۔سونیا گاندھی اترپردیش کی رائے بریلی سے تیسر ی مرتبہ اور اڈوانی گجرات کی گاندھی نگر سے پانچویں مرتبہ میدان میں ہیں۔

تیسرے مرحلے میں جن حلقوں میں پولنگ ہورہی ہے ان میں گجرات کے تمام 26 ‘ مدھیہ پردیش کے 16‘ اترپردیش کے 15‘ مغربی بنگال کے 14‘ بہار اور کرناٹک کے گیارہ گیارہ‘ مہاراشٹر کے 10 ‘ اور جموں و کشمیر‘ سکم‘ دادر اور ناگر حویلی کے ایک ایک حلقے شامل ہیں۔

Indien Die Vorsitzende der Kongresspartei Sonia Gandhi
تیسرے مرحلے کی ووٹنگ میں سونیا گاندھی بھی میدان میں اتری ہیں۔تصویر: UNI

الیکشن کمیشن نےجمعرات کی پولنگ کے لئے 1.65 لاکھ پولنگ مراکز قائم کئے ہیں۔ پولنگ کے لئے سیکیورٹی کے زبردست انتظامات کئے گئے ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال میں بائیں بازو کے انتہاپسند نکسلیوں کے غلبے والے علاقوں میں پولنگ پر نگرانی کے لئے دو ہیلی کاپٹر بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ نیپال سے ملنے والی تمام سرحدوں کو سیل کردیا گیا ہے۔خیال رہے کہ دوسرے مرحلے کی پولنگ نسبتاَ پرامن رہی تھی لیکن پہلے مرحلے کی پولنگ کے دوران تقریباَ 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایک غیرسرکاری تنظیم نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق تیسرے مرحلے کی پولنگ میں جو امیدوار میدان میں ہیں ان میں سے 258 مجرمانہ ریکارڈ والے ہیں ۔جب کہ کروڑ پتی امیدواروں کی تعداد 223 ہے۔

اس اہم مرحلے کی پولنگ کے لئے انتخابی مہم کے دوران سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے لیڈروں پر کافی کیچڑ اچھالی۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور بی جے پی نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ پر بالواسطہ حملہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے وزیر اعظم کو عوامی طور پر منتخب ہوکر آنا چاہئے۔ بی جے پی نے ڈاکٹر سنگھ کو آڈوانی کے ساتھ ٹیلی ویزن پر بحث کے لئے بھی للکارا۔ تاہم کانگریس نے اس مطالبے کو مسترد کردیا اور وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم کی حثیت سے اڈوانی کے دور میں ہونے والے مختلف دہشت گردانہ حملے یاد دلائے۔ دوسری طرف حکمراں کانگریس پارٹی نے اپوزیشن پر غیرضروری موضوعات اٹھانے کا الزام لگایا ہے ۔ لیکن بی جے پی کے لیڈر ارون جے ٹلی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جن اہم امور پر حکومت سے وضاحت چاہتے ہیں کانگریس پارٹی ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں مندی کے دور میں خوردنی اشیاءکی قیمتیں کم ہورہی ہیں وہاں بھارت میں آخر ان میں اضافہ کیوں ہورہا ہے‘ جب کہ ملک میں اناج کی پیداوار بھی کافی اچھی ہوئی ہے۔

تیسرے مرحلے کی پولنگ کے ساتھ ہی شمال مشرقی ریاست سکم میں اسمبلی کی 32سیٹوں کے لئے بھی ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔