1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں عام شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجراء شروع

29 ستمبر 2010

بھارت میں ایک بلین سے زائد شہریوں میں سے ہر ایک کو اس کا انفرادی شناختی کارڈ دینے کے وسیع تر منصوبے کا آغاز ہو گیا۔ حکومت کا کہنا ہےکہ اس سے دہشتگردی ، اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

https://p.dw.com/p/PPq1
شناختی کارڈوں کا اجراء ابھی تک جاری اس مردم شماری کا حصہ ہے، جس کا آغاز بھارتی خاتون صدر سے ہوا تھاتصویر: AP

اس کارڈ کے اجراء سے غریب اور پسماندہ طبقات کے لئے حکومت کی فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں بھی آسانی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن ماہرین قانون و سماجیات اور شہری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے انسانی وقار کے منافی قرار دیتے ہوئے فوراﹰ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور حکمران متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے مغربی ریاست مہاراشٹر میں نندور بار ضلع کے تمہیلی گاؤں کے دس قبائلیوں کو Unique Identification Number یا UID نمبر دے کر 450 بلین روپے کے اس عظیم تر پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر سنگھ نے رنجنا سونو نامی ایک قبائلی خاتون کو پہلا کارڈ دیا۔

آدھار نام کے اس پروجیکٹ کے تحت ملک کے 1.2 بلین شہریوں میں سے ہر ایک کو بارہ اعداد پر مشتمل ایک خصوصی شناختی نمبر دیا جائے گا۔ اس پروجیکٹ کو کئی مرحلوں میں پورا کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو اور 2014 تک ساٹھ کروڑ لوگوں کو یہ کارڈ فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔

Premierminister Manmohan Singh
وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے پروجیکٹ کا آغاز کیاتصویر: Fotoagentur UNI

انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنی انفوسس کے بانی نندن نیلکینی کی قیادت میں قائم کی گئی یونیک آئڈینٹی فیکیشن اتھارٹی آف انڈیا کو اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ہر شہری کو ایک خصوصی نمبر والا بایومیٹرک کارڈ جاری کیا گا، جس پر اس شہری کے جملہ ذاتی کوائف درج ہوں گے۔

وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نے اس پروجیکٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کے پاس کوئی شناختی کارڈ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے وہ نہ تو کسی بینک میں اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی راشن کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ وہ سرکار کی فلاحی اسکیموں سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور ان کے لئے جاری کی گئی رقومات دوسروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ا س سے سب سے زیادہ فائدہ اقتصادی اور سماجی لحاظ سے غریب اور پسماندہ لوگوں کو ہوگا اور انہیں باوقار زندگی بسر کے مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اسکیم ایک نئے اور جدید بھارت کی علامت ہے اور دنیا میں کہیں بھی اتنے بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں ہوا ہے۔

Ein Tonwaren-Verkäufer in Allahabad, Indien
حکومت اس پروجیکٹ کو غریب دوست کہہ رہی ہے تاہم اس کی زبردست مخالفت بھی کی جا رہی ہےتصویر: AP

UPA کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے کہا کہ یہ عام لوگوں کو بااختیار بنانے کی سمت اہم قدم ہے۔ ”ہمارا مقصد ہے کہ ترقی میں تمام لوگوں کوشامل کیا جائے اور یہ صرف پرانے خیالات اور پالیسیوں سے ممکن نہیں ہے۔ اطلاعات کے حق، قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم (نریگا) اور تعلیم کے حق جیسے پروگراموں کی طرح UID نمبروں کا اجراء بھی ترقی کو وسیع تر بنانے کی سمت قدم ہے، جس سے سسٹم کو شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔“

تاہم اس پروجیکٹ کی زبردست مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس ’’پروجیکٹ میں کئی مسائل ہیں۔ پرائیویسی کا مسئلہ ہے، پروفائلنگ اور ٹریکنگ کا خدشہ ہے۔ حتیٰ کہ اس کے کمرشل استعمال کا بھی خدشہ ہے اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اس سے غریبوں کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔‘‘

اس کے علاوہ مؤرخ رومیلا تھاپر، ارونا رائے، کے جی کنی بیرن، شبنم ہاشمی، پروفیسر اوپندر بخشی سمیت متعدد ماہرین قانون، ماہرین سماجیات، مؤرخین، حقوق انسانی کے کارکنوں اور دانشوروں نے شہریوں کو اس طرح کے شناختی نمبر دئے جانے کو انسانی وقار کو مجروح کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کا نمبر دینا اور شہریوں کے فنگر پرنٹ لینا غلامی کی علامت ہے۔ انہوں نے اسے شہریوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی، شفافیت کی کمی اور اس کارڈ کی کمرشلائزیشن جیسے امکانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوراﹰ بند کرنے کی وکالت کی ہے۔

قانون دان اوشا راماناتھن نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’’بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سرکار کے سامنے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے شناخت نامہ نہیں ہے۔ اس لئے سرکاری ادارے ان کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو شناخت نامہ دینے کے لئے یہ پروجیکٹ لایا جارہا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی شناخت ہے، لوگ انہیں جانتے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ وہ یہاں رہتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ بہت سی دیگر وجوہات کی بنا پر ایسے غریب لوگوں کو سرکاری اسکیموں سے الگ رکھا جاتا ہے جبکہ شناخت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، چین اور جرمنی جیسے ملکوں نے بھی اس طرح کے پروجیکٹ شروع کئے تھے لیکن ان کے مبینہ طور پر غیرعملی، غیرمنصفانہ اور خطرناک پہلوؤں کا اندازہ ہونے کے بعد انہیں ترک کردیا تھا۔

اس پروجیکٹ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس دعوے میں کوئی دم نہیں ہے کہ اس سے غریبوں کو عوامی نظام تقسیم یا ’نریگا‘ کے تحت ملازمتیں ملنے میں سہولت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو شناختی نمبر دے کر ان اسکیموں میں موجودہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی میں ملوث افراد پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اتنا بڑا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے اس کی افادیت اور اس کے قانونی مضمرات کے بارے میں نہ تو کوئی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور نہ ہی اس کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی بحث مباحثہ کرایا گیا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں