1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں مفت کنڈومز فراہم کرنے والا اسٹور فعال

26 اپریل 2017

بھارت میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر ایک عالمی چیرٹی ادارے نے ایک ایسے اسٹور کو فعال بنا دیا ہے، جہاں سے مفت کنڈوم حاصل کیے جا سکیں گے۔ بھارت میں 2.1 ملین افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔

https://p.dw.com/p/2by9V
Bildergalerie Geschichte von HIV/AIDS
تصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چھبیس اپریل بروز بدھ عالمی چیرٹی ادارے ’ایڈز ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن‘ AHF نے بھارت میں مفت کنڈوم کی فراہمی کے لیے ایک اسٹور کا افتتاح کر دیا ہے۔ بھارت جیسے قدامت پسند ملک میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر یہ اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔

فلپائن: اسکولوں میں کنڈوم تقسیم کرنے کا منصوبہ مسترد

پاکستان: مانع حمل مصنوعات کے اشتہارات پر پابندی

بھارت میں ’کنڈومز کی قلت‘ ہوگئی

اے ایچ ایف نے بتایا ہے کہ اب لوگ ٹیلی فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے کنڈومز آرڈر کر سکیں گے اور انہیں ان کا آرڈر گھر تک پہنچایا جائے گا۔ یہ امر اہم کہ بھارت میں بھی کنڈوم کی کھلے عام تشہیر ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ انہیں کھلے عام اسٹورز سے خریدنے سے احتراز کرتے ہیں۔

 یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بالخصوص جسم فروشوں سے غیر محفوظ جنسی رابطے ایچ آئی وی یا ایڈز میں مبتلا ہونے کا باعث بن سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت میں جسم فروش اور محروم طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بازار سے کنڈوم نہیں خریدتے۔

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ بھارت میں نئے افراد کے ایچ آئی وی کی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس جنوب ایشائی ملک میں دو اعشاریہ ایک ملین اس وائرس کا شکار ہیں۔

Indien AIDS Verteilung von Kondom in Kalkutta
بھارت میں ایک جسم فروش خاتون ہیلتھ ورکر سے کنڈوم وصول کرتی ہوئیتصویر: AP

بھارت میں اس بیماری کے خلاف جاری جنگ میں حکومت نے بھی اپنے ہیلتھ سینٹرز میں مفت کنڈوم فراہم کرنے کی اسکیم شروع کر رکھی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہاں اس کا اسٹاک اکثر ختم ہی رہتا ہے یا ان کی کوالٹی ٹھیک نہیں ہوتی۔

اے ایچ ایف سے وابستہ اہلکار ٹیری فورڈ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ جنسی عمل کے دوران  ایچ آئی وی سے بچنے کا بہترین اور سستہ ترین راستہ یہ ہے کہ کنڈوم استعمال کیا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو اس حوالے سے شعور و آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔