1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات

28 جولائی 2011

2009ء میں عائلہ نامی طوفان دریائے گنگا کے ڈیلٹا پر سے ہوتا ہوا گزرا تھا۔ تب متعدد جزائر کئی کئی میٹر بلند لہروں کی لپیٹ میں آ گئے تھے اور مکانات کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبہ بھی تباہ ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/12544
عائلہ کے بھارتی متاثرین
عائلہ کے بھارتی متاثرینتصویر: picture alliance/dpa

300 افراد ہلاک جبکہ دو لاکھ بے گھر ہو گئے تھے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران براعظم ایشیا اور بالخصوص بھارت میں اچانک آنے والے سیلاب اور خشک سالی ایک معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ دریائے گنگا کا ڈیلٹا دُنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ڈیلٹا ہے اور وہاں اُستوائی طوفان آتے ہی رہتے ہیں تاہم عائلہ نامی طوفان ایک ایسے مہینے میں آیا تھا، جس میں اس سے پہلے کبھی طوفان نہیں آئے تھے اور یوں انسان اس غیر متوقع قدرتی آفت کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔

عائلہ کے بعد سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ موسمیاتی تبدیلیلوں کے جو اثرات یورپ یا شمالی امریکہ میں ابھی محض کانفرنسوں کا موضوع ہیں، وہ دریائے گنگا کے ڈیلٹا میں حقیقت کا روپ دھار بھی چکے ہیں۔

عائلہ نامی طوفان نے بھارت اور بنگلہ دیش کے وسیع تر علاقوں کو تباہ کر دیا تھا
عائلہ نامی طوفان نے بھارت اور بنگلہ دیش کے وسیع تر علاقوں کو تباہ کر دیا تھاتصویر: AP

ماہرین کا اندازہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں بھارت کے لیے سنگین اثرات کی حامل ہو سکتی ہیں۔ واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی اقتصادیات کے پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ امریکی ماہر معاشیات ولیم کلائن کے خیال میں زمینی درجہء حرارت میں اضافے کے باعث سن 2080ء تک بھارت میں اناج کی پیداوار میں دو تہائی سے زیادہ کی کمی ہو جائے گی۔ اتنا بڑا نقصان دُنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کو برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔

خود بھارتی شہری ان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے زیادہ قصور وار نہیں ہیں۔ امریکہ یا چین کی طرف سے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھا جائے تو ایک ارب سے زیادہ آبادی والے اور دُنیا کے ساتویں بڑے ملک بھارت کی کارکردگی اچھی کہی جا سکتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس ملک میں ابھی تک بڑے پیمانے پر پائی جانے والی غربت بھی ہے۔

تاہم بھارت بھی یہ بات جان چکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں اُسے بھی مدد کرنا ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے شعبے میں آج کل بہت زیادہ منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔

بھارت میں شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ پون چکیوں کے ذریعے بھی تواناسی حاصل کی جا رہی ہے
بھارت میں شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ پون چکیوں کے ذریعے بھی تواناسی حاصل کی جا رہی ہےتصویر: R. Hörig/DW

ہوا سے توانائی کے حصول کے منصوبوں کی ہی گنجائش تقریباً سترہ سو میگا واٹ بنتی ہے اور اس اعتبار سے بھارت ہوا سے بجلی حاصل کرنے والا دُنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سن 2030ء میں بھارت اپنی ضرورت کی تقریباً پندرہ فیصد بجلی پَوَن چکیوں سے حاصل کر رہا ہو گا۔

گنگا ڈیلٹا میں بسنے والے غریب انسان بھی شمسی توانائی استعمال کرتے ہوئے زمینی درجہء حرارت کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ چھوٹے چھوٹے شمسی پلانٹس کی مدد سے چند ایک بلب ہی جل سکتے ہیں اور ریڈیو یا ٹی وی ہی چلایا جا سکتا ہے لیکن اگر کئی ملین انسان اس طرح کی توانائی استعمال کر رہے ہوں، تو بہت زیادہ فرق پڑ سکتا ہے۔ شمسی پلانٹ تیار کرنے والے بھارتی ادارے گیتانجلی سولر انٹرپرائز کے مطابق سندر بن کے 4.5 ملین باسیوں میں سے نصف نے یہ مِنی سولر پلانٹ نصب کر رکھے ہیں۔ یہ تعداد یورپ یا امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

رپورٹ: شراڈر / امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں