1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں نکسلیوں کاایک اور بڑا حملہ

13 جولائی 2009

بائیں بازو کے انتہاپسند نکسلیوں کے حملوں میں ایک بار پھر تیزی آگئی ہے۔ پچھلے24 گھنٹوں کے دوران انہوں نے وسطی صوبہ چھتیس گڑھ میں ایک اعلٰی پولیس افسر سمیت تین درجن سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔

https://p.dw.com/p/Imp2
بھارت کی کئی ریاستوں میں ماؤنواز انتہائی طاقت کے حامل ہیںتصویر: AP

ان حملوں کو گزشتہ ایک دہائی میں نکسلیوں کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جارہا ہے۔ چھتیس گڑھ کے راج نند گاؤں میں نکسلیوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ تیرہ پولیس والے اب بھی لاپتہ ہیں اور یہ خدشہ ظا ہر کیا جارہا ہے کہ وہ بھی مارے گئے ہوں گے۔گوکہ ریاست کے ڈائریکٹر جنرل پولیس مکیش گپتا ان حملوں میں بال بال بچ گئے لیکن ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ونود کمار چوبے مارے گئے۔حالانکہ حکومت نے چند ہفتے قبل ہی ماؤ نواز نکسلیوں کو غیرقانونی قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی تھی لیکن وہ اب بھی جہاں اور جب چاہتے ہیں سیکیورٹی اہلکاروں کو آسانی سے اپنا نشانہ بنارہے ہیں۔

مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں سینئر ریسرچ فیلو اور نکسلی امور کے ماہر اوم شنکرجھا نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے نکسلی حملوں کو ملک کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ نکسلیوں نے اپنے آپ کو زبردست طریقے سے منظم کرلیا ہے، ان کے کارکن دھن کے پکے ہیں اور ان کی قیادت کافی مضبوط اور جنگ کے جدید طریقوں سے واقف ہے۔

نکسلی مسئلے سے دوچار ملک کی بیشتر ریاستوں میں نکسلیوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف چھتیس گڑھ میں ہی پچھلے چار برسوں کے دوران نکسلیوں کے حملوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔2005ء میں نکسلیوں نے 385حملے کئے جن میں 47سیکیورٹی اہلکار اور 121عام شہری مارے گئے جبکہ 2008 میں نکسلیوں کے حملوں کی تعداد 620 تھی جن میں 85 سیکیورٹی اہلکار اور 157 سویلین مارے گئے۔ اس طرح2005ء سے2008ء کے دوران مجموعی طور پر ایک ہزار 167 افراد مارے گئے جن میں 414 سیکیورٹی اہلکار اور 753 سویلین تھے۔ اس کے علاوہ گذشتہ مئی میں نکسلیوں نے ریاستی دارالحکومت رائے گڑھ سے 150 کلومیٹر دور ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ کرکے 13 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے ہی نکسلیوں کے ایک اور حملے میں گیارہ لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔

حالانکہ نکسیلوں کے خلاف حکومت کو بعض ریاستوں مثلا آندھرا پردیش میں کامیابی ملی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو صرف طاقت

کے ذریعہ حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا حل سماجی اور سیاسی عمل کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اوم شنکر جھا نے کہا کہ جن علاقو ں میں نکسلی مسئلہ ہے ان علاقوں میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے لیکن ان سے مقامی لوگوں کو بہت کم فائدہ پہنچا ہے ۔ بڑی بڑی کمپنیاں ان سے فائدہ اٹھارہی ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ناراضگی اور غصہ پایا جاتا ہے اور بائیں بازو کی ماؤنواز انتہاپسند اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

دریں اثناء نکسلیوں کے حملے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست چھتیس گڑھ میں سیاسی ماحول بھی گرم ہوگیا ہے۔ وزیر اعلٰی رمن سنگھ نے جہا ں نکسلیو ں کے خلاف فیصلہ کن جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا ہے وہیں اپوزیشن کانگریس پارٹی نے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس دوران شمال مشرقی ریاست آسام میں آج انتہاپسندوں نے بارودی سرنگ کا دھماکہ کرکے آرمی کے ایک کرنل اور ایک ڈرائیور کو ہلاک کردیا۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر