1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں 117 ارب ڈالر کی ٹیکس چوری، حکومت پریشان

امتیاز احمد18 اپریل 2016

بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں نے ہیرا‍ پھیری کرتے ہوئے تقریباﹰ 117 ارب ڈالر کی رقوم بطور ٹیکس ادا نہیں کیں۔ ہر اٹھارہ کمانے والے افراد میں سے صرف ایک شخص ٹیکس ادا کرتا ہے۔ حکومت پریشان ہے، کرے تو کرے کیا؟

https://p.dw.com/p/1IXYS
Indische Rupien
تصویر: AP

بھارتی وزارت خزانہ میں ان دنوں ٹیکس کولیکٹرز کی رپورٹوں اور اس میں پیش رفت کے حوالے سے باقاعدگی سے اجلاس ہو رہے ہیں۔ حکومت نے اپنے شہریوں کے لیے ایک مقررہ تاریخ تک غیر اعلان شدہ اثاثہ جات پر واجب الادا ٹیکس جمع کروانے پر معافی کا اعلان بھی کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود ٹیکس کی ادائیگیوں میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

بھارت کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے لیکن اس کی سالانہ ترقی کی شرح کے لحاظ سے ٹیکس وصولی کی شرح ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سب سے کم ہے۔ اس ملک میں ہر اٹھارہ کمانے والے افراد میں سے صرف ایک شخص ٹیکس ادا کرتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس کی مد میں اس وقت بھارتی شہریوں پر واجب الادا بقایا جات تقریباً 117 ارب ڈالر ہیں اور یہ رقم گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔

بھارتی ٹیکس حکام کے اندازوں کے مطابق اس خطیر رقم کا صرف پندرہ سے بیس فیصد حصہ وصول کیا جا سکتا ہے کیوں کہ جن پر ٹیکس کی یہ رقوم واجب الادا ہیں، اب وہ اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ یہ ادائیگیاں کر سکیں۔ بعض حکام کے مطابق پندرہ سے بیس فیصد رقم وصول کرنا کم ترین ہدف ہے اور سست قانونی عمل کی وجہ سے اس ہدف تک پہنچنے میں بھی کئی برس لگیں گے۔

بھارت کی وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وزیر خزانہ تقریباﹰ ہر ہفتے پوچھ رہے ہیں کہ کتنا ٹیکس وصول کیا گیا ہے؟

Indische Rupien
بھارت کی مجموعی قومی پیداوار تقریباﹰ دو ٹریلین ڈالر ہے جبکہ اس کے شہریوں پر واجب الادا ٹیکس اس پیداوار کا چھ فیصد بنتا ہےتصویر: AP

اطلاعات کے مطابق ٹیکس وصولیوں کی کوششوں کے پیچھے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دیرینہ ساتھی اور بیوروکریٹ ہنس مکھ ادھیا ہیں۔ تاہم انہوں نے کسی بھی قسم کا انٹرویو دینے سے انکار کیا ہے۔ دوسری جانب وزارت خزانہ کے ایک ترجمان ڈی ایس ملک نے کہا ہے، ’’جس کی طرف بھی ٹیکس بنتا ہے، وہ ہر صورت وصول کیا جائے گا۔‘‘

بھارتی وزارت خزانہ کو اس وقت بڑے اخراجات کا سامنا ہے۔ ان میں دس ملین سرکاری ملازمیں کی تنخواہوں میں چوبیس فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔

بھارت کی مجموعی قومی پیداوار تقریباﹰ دو ٹریلین ڈالر ہے جبکہ اس کے شہریوں پر واجب الادا ٹیکس اس پیداوار کا چھ فیصد بنتا ہے۔ اور یہ چھ فیصد رقم تقریباﹰ نوے بلین ڈالر کے قرضوں کے اُس ہدف سے زیادہ ہے، جو رواں مالی سال کے لیے حکومت کی طرف سے رکھا گیا ہے۔ بھارت کے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے فروری کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں پانچ اعشاریہ دو بلین ڈالر کی وصولیاں کی گئی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت ٹیکس کے نظام کو جدید تر بنانا چاہتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکس حکام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ٹیکس ٹریبونل کے پاس کیس اسی وقت لے کر جائیں، جب ایک ملین سے زائد روپے کا معاملہ ہو۔ اس سے کم ٹیکس چوری کے معاملات عدالت سے باہر ہی نمٹانے کی ہدایات ہیں۔ ایسے میں ٹیکس کی ہیر پھیر کرنے والوں کو آسان شرائط پر ادائیگی کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی یکم جون سے اپنے غیر اعلان شدہ اثاثوں پر ٹیکس ادا کرنا شروع کرتا ہے تو تین ماہ تک اس سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح کی ایک اسکیم گزشتہ برس متعارف کروائی گئی تھی، جس کے تحت اضافی طور پر ایک بلین ڈالر جمع کیے گئے تھے۔