1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نئے سیاسی اتحاد کے اشارے

افتخار گیلانی، نئی دہلی6 مئی 2009

بھارت میں انتخابی عمل اب دھیرے دھیرے اپنے اختتام کی طرف پہنچ رہا ہے اور تمام بڑی سیاسی پارٹیاں انتخابات کے بعد ممکنہ سیاسی صورتحال کا انداز ہ لگانے اور اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرنے پر توجہ دے رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Hkt4
حکومت سازی میں بائیں بازو کا محاز ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہےتصویر: UNI

جمعرات کے روز عام انتخابات کے چوتھے مرحلے کی پولنگ ہونے والی ہے اور یہ بات تقرےباً طے ہوچکی ہے کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی صرف اپنے بل بوتے پر آئندہ حکومت نہیں بناسکے گی ا ور بھارت میں آئندہ حکومت ایک مخلوط حکومت ہوگی۔ اس لئے ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کو اپنے دام میں لانے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہی ہیں۔

Erste Parlamentssitzung - Rahul Gandhi
کانگریس کے رہنما نے بائیں بازو کے ساتھ اتحاد کے اشارے دیے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

کانگریس پارٹی کے جنرل سکرٹری راہول گاندھی نے اسی سلسلے میں کل بائیں بازو کی جماعتوں، جنتا دل یونائیٹڈ اور تیلگو دسیم کی طرف پانسہ پھینکا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ خود کانگریس کے لئے الٹا پڑ گیا کیوں کہ اس کی حلیف جماعتوں راشٹریہ جنتا دل اور ترنمول کانگریس نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور راہول گاندھی نے کہا تھا کہ آئندہ حکومت سازی کے لئے بائیں بازو کی حمایت کا متبادل کھلا ہوا ہے۔ ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی کو یہ کافی ناگوار گذرا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ اگر کانگریس نے آئندہ حکومت بنانے کے لئے بایئں محاذ سے حمایت لی یا کوئی معاہدہ کیا تو ان کی پارٹی کو کانگریس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔

اس نئی صورت حال نے اپوزیشن بھارتیہ جنتاپارٹی کو کانگریس پر حملہ کرنے کے لئے ایک اور موقع فراہم کردیا۔ بی جے پی کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ اپنے ہمدردوں اور ساتھیوں کو نیچا دکھانا کانگریس کی پرانی عادت ہے۔ انہوں نے کانگریس کی حلیف جماعتوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہی کانگریس کا اصل چہرہ ہے اور یہی کانگریس کی پالیسی ہے کہ جس کے سہارے آگے بڑھے، جس کی مددسے ملک کو لوٹے اسے ہی دھکے دے۔

Vor den Wahlen in Neu Delhi PK der Kommunistischen Partei
کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اے بی بردھان اور ڈاکٹر راجا پارٹی کے منشور کا اجراء کرتے ہوئےتصویر: AP



راہول گاندھی نے کہا تھا کہ بی جے پی کی قیادت والا این ڈی اے کا اب کوئی وجود نہیں رہ گیا ہے اور یہ صرف بی جے پی والوں کے ذہنوں تک باقی بچا ہے۔ بی جے پی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت والا متحدہ ترقی پسند اتحاد کو اپنا وجود بچانا مشکل پڑ رہا ہے۔

پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ صرف اڑیسہ میں نوین پٹنائک کی قیادت والی بیجو جنتا دل ہی این ڈی اے اتحاد سے الگ ہوا ہے جب کہ دوسری کئی پارٹیاں اس میں شامل ہوئی ہیں۔

ادھر کانگریس نے کہا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتی ہے اور دعوی کیا کہ وہی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ملک میں اگلی حکومت بنائے گی۔

کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر اشونی کمار نے کہا کہ انتخابات کے نتائج سامنے آجانے کے بعد سب کو پتہ چل جائے گا کہ نئی حکومت کون اتحاد بنارہا ہے۔

دریں اثناء کانگریس پارٹی کے بیان پر بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے کہا کہ کانگریس نے بہرحال یہ اعتراف تو کر ہی لیا کہ وہ الیکشن میں اکثریت حاصل نہیں کررہی ہے۔