1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے 100 سے زائد چوٹیوں کو غیرملکی کوہ پیماوں کیلئے کھول دیا

11 اپریل 2010

بھارت کے اس اقدام سے سیاحت سے وابستہ افراد کافی خوش ہیں لیکن سیاسی اور دفاعی ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ نئی پہل بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث نہ بن جائے۔

https://p.dw.com/p/Mt5j
تصویر: npb

بھارتی وزارت دفاع نے جموں و کشمیر کے لداخ علاقے میں واقع کافی اونچائی والی 104 چوٹیوں کو غیرملکی کو ہ پیماوں اور ٹریکنگ کرنے والوں کے لئے کھول دیا ہے۔ ان چوٹیوں کی اونچائی9842 فٹ سے لے کر 25590 فٹ تک ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر سیاحت نوانگ ریگزن زورا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع نے حالانکہ پہلے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن اب اس نے ان چوٹیوں کو غیرملکی سیاحوں کے لئے کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ریاست میں غیرملکی سیاحوں کو راغب کرنے میں کافی مدد ملے گی اورسیاحت کو فائدہ پہونچے گا۔

Indien Sicherheitskräfte Bundesstaat Jammu
جموں و کشمیر کا علاقہ ہر موسم میں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزتصویر: UNI

سیاحت سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ایک بار پھر سیاحت کا احیاء ہوگا اور کافی لوگوں کو روزگار ملے گا۔تاہم ماہرین ماحولیات نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہر ماحولیات وندنا شیوا نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس سے سیاحت کو فائدہ پہنچے لیکن کنزیومر ٹورزم بہر حال ماحولیات کے لئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” جو کنزیومر ٹورزم ہے اس پر کنٹرول ہونا چاہئے ‘ جو لوگ پیدل چل کر جانا چاہتے ہیں اس پر بھی کسی حد تک کنٹرول ہونا چاہئے۔اس بات کا تو بہر حال خیال رکھنا ہوگا کہ زیادہ لوڈ اس علاقے کے ماحولیات کی آلودگی کا سبب بنے گا۔“

Buddhistisches Kloster in Ladakh
ہمالیہ کے جنوب مشرق میں واقع لداخ کے پر فضا مقام کی آب و ہوا کافی حد تک آلودگی سے پاک ہے۔تصویر: AP

بھارت میں بیشتر چوٹیاں سرحدی علاقوں میں ہیں اور ان پر وزارت دفاع اور فوج کا سخت کنٹرو ل ہے ۔ چونکہ انہیں چوٹیوں پر بیشتر گلیشئر ہیں اور وہی مختلف ندیوں کے پانی کا اصل منبع ہیں اس لئے حکومت ان چوٹیوں کے بارے میں کوئی بھی اعدادوشمار جاری کرنے سے گریز کرتی ہے ۔ اور عام لوگوں کے بھی ان علاقوں میں جانے پر پابندیاں عائد ہیں۔ وندنا شیوا نے تاہم کہا کہ ٹریکنگ کے لئے ایک سو سے زائد چوٹیوں کے کھولنے سے اعدادوشمار حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی سیکورٹی زیادہ اہم ہے اس لئے حکومت کو اس طرح کے اعدادوشمارخود ہی جاری کرنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ”ہماری ایکولوجیکل سیکورٹی سب سے بڑی سیکورٹی ہے اور یہ عوام کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔جو ندیاں لوگوں کو زندگی دیتی ہیں ان کاڈاٹا حکومت آفیشیل سیکریٹ بناکر رکھے یا دفاعی راز قرار دے یہ بالکل غلط ہے۔ میں تو یہ کہوں گی کہ ہمارے دفاعی اداروں کو ان اہم امور پر عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے اور اس طرح کے اعدادوشمار لوگوں کے لئے عام ہونے چاہئیں۔“

Indische Soldaten am Siachen Gletscher
بھارت اور پاکستان کے مابین ہمیشہ سے تنازعہ کا باعث بنے ہوئے سیاچن گلیشیرزتصویر: APTN

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان چوٹیوں کو کھولنے کے پیچھے سیاسی مقصد بھی کارفرما ہے۔ غیرملکی سیاحوں کے لئے ان چوٹیوں کے کھولنے سے بھارت کا یہ سیاسی دعٰوی زیادہ مضبوط ہوتا ہے کہ یہ علاقہ بھارت کا حصہ ہیں۔ اس سے قبل پچھلے سال بھارت نے متنازعہ سیاچین چوٹی کو سویلین ٹریکنگ کے لئے کھولا تھا جس پر پاکستان نے سخت اعتراض کیا تھا۔ یاد رہے کہ سیاچین تنازعہ بھی اسی طرح کے ٹریکنگ مہم سے ہی شروع ہوا تھا جس کی اجازت پاکستان نے دی تھی ۔ دراصل بھارت او رپاکستان دونوں ہی ملک ان چوٹیوں پر ٹریکنگ کی اجازت دینے کو ان چوٹیوں پر اپنے اپنے دعووں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

رپورٹ افتخار گیلانی‘ نئی دہلی

ادارت کشور مصطفیٰ