1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج

جاوید اختر، نئی دہلی19 مئی 2016

بھارت کی پانچ اہم ریاستوں کے صوبائی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی شمال مشرقی ریاست آسام میں پہلی مرتبہ کامیاب ہوئی جب کہ کانگریس پارٹی کے ہاتھوں سے مزید دو ریاستیں نکل گئیں۔

https://p.dw.com/p/1Iqcd
Indien Wahlen 2014 BJP Narendra Modi Rangoli
س وقت بی جے پی کی حکومت نو ریاستوں میں ہے جب کہ چار ریاستوں میں وہ اقتدار میں شراکت دار ہےتصویر: Reuters

سیاسی لحاظ سے اہمیت کی حامل پانچ بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالہ اور پڈوچیری میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے۔ ان میں سے دو ریاستوں، مغربی بنگال اور جنوبی ریاست تمل ناڈو میں دونوں خواتین وزراء اعلیٰ بالترتیب ممتا بنرجی اور جے جیہ للیتا پانچ سال کی دوسری مدت کے لئے بھی اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔

ممتا بنرجی کی پارٹی ترنامول کانگریس پچھلی مرتبہ کے مقابلے اس بار زیادہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔294 سیٹوں والی ریاستی اسمبلی میں اس پارٹی نے گزشتہ الیکشن میں 184 سیٹوں حاصل کی تھیں جب کہ اس مرتبہ ترنامول کانگریس نے 215 سیٹیں حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ جب کہ جیہ للیتا کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی AIADMK گزشتہ ستائیس برسوں کے وقفے کے بعد مسلسل دوسری مرتبہ کامیاب ہونے والی پارٹی بن گئی ہے۔ اس سے پہلے ان کے سیاسی گرو اور اداکار ایم جی رام چندرن نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔رام چندرن ہی جیہ للیتا کو فلموں سے سیاست میں لے کر آئے تھے۔

جنوبی ریاست کیرالہ میں کانگریس کی قیادت والے یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو بائیں محاذ کی قیادت والے ’لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ پڈوچیری میں برسراقتدار جماعت کانگریس اپنی لاج بچانے میں کامیاب رہی۔

ان اسمبلی انتخابات میں سرحدی ریاست آسام کے نتائج کو سب سے اہم قرا ردیا جارہا ہے۔ آسام کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں اور ریاست میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کا مسئلہ ایک مستقل سیاسی مسئلہ ہے جسے سیاسی جماعتیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس ریاست میں کامیابی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ مبینہ غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بھارت سے نکال باہر کرنے کی مہم چلاتی رہی ہے۔ اس ریاست میں گزشتہ پندرہ برسوں سے کانگریس اقتدار میں تھی۔ آسام کے نتائج بھارتیہ جنتا پارٹی اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہیں کہ 2014ء کے عام انتخابات میں ان کی زبردست کامیابی کے بعد ملکی دارالحکومت دہلی اور مشرقی ریاست بہار کے اسمبلی انتخابات میں انہیں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی شہرت کو کافی نقصان پہنچا تھا۔

یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی شمال مشرقی خطے کی کسی ریاست میں اپنی حکومت بنائے گی۔ تجزیہ کار اسے بھارت کے نقشے پر ہندو قوم پرستوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار منوج جوشی کے مطابق، ’’ان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا کوئی نقصان نہیں ہونے والا تھا، اگر کچھ ہوتا تو اسے فائدہ ہی ہوتا، اور اسے فائدہ ہوگیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فی الحا ل ہوا اس کے حق میں چل رہی ہے۔‘‘ اس وقت بی جے پی کی حکومت نو ریاستوں میں ہے جب کہ چار ریاستوں میں وہ اقتدار میں شراکت دار ہے۔ دوسری طرف کانگریس بھارت کی 29 ریاستوں میں سے اب صرف چھ میں ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔

Indien Sonia Gandhi & Rahul Gandhi
کانگریس بھارت کی 29 ریاستوں میں سے اب صرف چھ میں ہی سمٹ کر رہ گئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta

وزیر اعظم نریندر مودی نے ان انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے عوا م کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹوئٹ کیاکہ پورے بھارت میں اب لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی پراعتماد کرنے لگے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی پارٹی ملک کی ہمہ جہت اور جامع ترقی ممکن بنا سکتی ہے۔ انہوں نے آسام میں پارٹی کی جیت کو غیر معمولی قرار دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بھارت کی قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے اگلے ہفتے دو برس مکمل ہو رہے ہیں اور اس پر اپنے انتخابی وعدوں کو پورا نہ کرنے اور دیگر پارٹیوں کی ریاستی حکومتوں کو گرانے کی سازش کرنے کے جو الزامات عائد کیے جارہے تھے وہ کسی حد تک پس پشت چلے جائیں گے۔ دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ میدان میں آسکے گی۔ بہرحال وزیر اعظم نریندر مودی کو اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے اہم بل پاس کرانے میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں ابھی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ وہاں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے۔

کانگریس نے ان انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرلی ہے ۔پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ’’میں عوام کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ ان کی بہتری کے لئے کام کرتا رہوں گا۔‘‘ دوسری طرف کانگریس کے ایک سینئر رہنما اور سابق معاون وزیر خارجہ ششی تھرور نے اس شکست کو تاریخی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پورے بھارت میں اگر بی جے پی کا کوئی متبادل ہے تو وہ کانگریس ہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید