1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پولیس افسر کا قتل، نکسل باغیوں نے ذمہ داری قبول کرلی

6 اکتوبر 2009

بھارت میں بائیں بازوکے ماؤنواز باغیوں نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر جھارکھنڈ میں ایک پولیس افسر کواغوا کرنے کے بعد قتل کرکے اس کی لاش سڑک پھنک دی۔

https://p.dw.com/p/K0In
تصویر: AP

نئی دہلی میں وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ ماؤنواز انتہاپسندو ں نے کوئی مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر باغیوں کا کوئی مطالبہ تھا تو اسے مناسب طریقے پر پیش کرنا چاہئے تھا۔

ذرائع کے مطابق مقتول پولیس افسر فرانسس اندوار کی لاش کے ساتھ ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں ماؤنواز باغیوں نے اپنے ساتھیو ں کی رہائی کا مطالبہ پورا نہ ہونے اندورا کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔انہوں نے آنے والے دنوں میں مزید پولیس افسران اور ان کے رشتہ داروں کو اغوا کرنے کی دھمکی بھی دی۔

Minister P. Chidambaram
بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برمتصویر: AP

فرانسس اندورا کو چند دنوں قبل مشرقی ریاست جھارکھنڈ کے کھونٹی ضلع میں ایک بازار سے اغوا کرلیا گیا تھا اور ان کی لاش ریاستی دارالحکومت رانچی سے 12 کلومیٹر دور رانچی۔ جمشیدپور شاہراہ پر ملی۔ ماؤنوازوں نے دہلی میں گرفتار اپنے رہنما کوباد گاندھی اور چھتردھر مہتو کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

وزیر داخلہ چدمبرم نے کہا کہ ماؤنواز انتہاپسند بھارت کی داخلی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی نکسل زدت پسندوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ لیکن حقوق انسانی کے کارکنان اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔

حقوق انسانی کے کارکن گوتم نولکھا نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ”صرف وزیر اعظم کے بیان دے دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم نے تو سکھوں کے قتل عام کے سلسلے میں سکھوں اور ملک کے عوام سے معافی مانگی تھی اور قصوروار وں کے خلاف کارروائی کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن انہوں نے آج تک کیا کارروائی کی؟ دوسری طرف خود وزیر اعظم یہ بات کہتے ہیں کہ نکسلیوں کو غریب ترین لوگوں اور قبائلیوں کی حمایت مل رہی ہے۔“

وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا ہےکہ پچھلے دس برسوں مےں نکسلیوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار اور حملہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ انسانی حقوق کی دھائی دے کر نکسلیوں کی تعریف کے پل باندھتے نہیں تھکتے ۔تاہم گوتم نولکھا نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے ماؤنوازوں کی انتہاپسندانہ سرگرمیوں کی کبھی حمایت نہیں کی۔” حکومت کو پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ وہ نکسل شدت پسندوں کو ختم کرنے کے نام پر کس طرح کی کارروائیاں کررہی ہے، سیکورٹی فورسز وہاں کے غریب اور عام لوگوں پر کتنا اور کس طرح ظلم ڈھا رہی ہیں۔“

Indiens Rote Armee
بھارت میں نکسل باغیوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہےتصویر: AP

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ پہلے وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دے، اس کے بعد حقوق انسانی کی تنظیمیوں پر نکتہ چینی کرے۔ ’’حکومت دراصل حقوق انسانی کی تنظیموں پر جھوٹے الزام اس لئے لگاتی ہے کہ سچائی سامنے نہ آسکے۔‘‘

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نکسلیوں کو جڑ سے ختم کرنےکے لئے ایک جامع منصوبہ بنارہی ہے اور جلد ہی اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا ۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ نئی دہلی حکومت نکسل باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی پولیس کی بھرپور مدد کرتی رہے گی۔

اسی دوران باغیوں کے خلاف ریاستی حکومتوں کی کارروائیوں میں مدد کرنے والی بھارتی فضائیہ نے حکومت سے نکسل شدت پسندوں کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ تاہم بارڈر سیکورٹی فورس کے سابق سربراہ اور نکسلیوں سے متعلق وزارت داخلہ کی کمیٹی کے سابق سربراہ مہندرا کماوت نے متنبہ کیا ہے کہ نکسلیوں کے خلاف فضائی آپریشن سے ملک میں افغانستان اور عراق جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

کماوت نے کہا کہ نکسلیوں کے خلاف حکومت کی کارروائیوں کے موثر نہ ہونے کی ایک اہم وجہ ریاستی اداروں کے درمیان ایک دوسرے سے خاطر خواہ تعاون کی عدم موجودگی ہے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: انعام حسن