1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کم عمری کی شاديوں کی روک تھام ميں مساجد کا کردار

بینش جاوید، روئٹرز
23 اگست 2017

ٹیکنالوجی کے ليے معروف بھارتی شہر حیدر آباد میں کم سن لڑکیوں کو عرب مردوں کو فروخت کیے جانے کے عمل کو اب مساجد کی مدد سے روکا جا رہا ہے۔ مقامی مساجد اس مسئلے کے حل کے لیے پر عزم نظر آتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2igPt
Trinidad Imran N. Hosein in der Mucurapo Moschee in San Fernando
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Bahadur

نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ماضی قریب میں کئی ايسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، جن میں کم سن بھارتی لڑکیوں کو اکثر ادھیڑ عمر عرب مردوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اکثر یہ لڑکیاں گھروں میں ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ایک ایسے ہی کیس کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بھارت کی ایک سولہ سالہ لڑکی کی شادی عمان کے ایک 65 سالہ مرد کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کے عوض کر دی گئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اس لڑکی نے روتے ہوئے اپنی ماں کو فون کیا۔ حیدر آباد پولیس کے مطابق اس لڑکی کے والد نے دستاویزات میں اپنی بیٹی کی عمر غلط ظاہر کی تھی۔ بھارت میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی ممنوع ہے۔  اس لڑکی کے والد کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پولیس اس قاضی کو بھی ڈھونڈ رہی ہے، جس نے اس لڑکی کا پینسٹھ سالہ شخص کے ساتھ نکاح پڑھایا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق بھارت میں کئی سرکاری ایجنسیاں سولہ سالہ متعلقہ لڑکی کو واپس بھارت لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

Indien jügendliche Protituierte gerettet in Bombay
عمر رسیدہ عرب مردوں کے ساتھ شادیوں کا سلسلہ حیدرآباد میں کافی پرانا ہےتصویر: imago/UIG

کم عمری ميں شادیوں کے خلاف مہم جوئی کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہر سال ایسی کئی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو عرب ممالک بھیج دیا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں کو وہاں زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد میں’ ڈسٹرک چائلڈ پروٹیشکن‘ کے افسر امتیاز رحیم نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ یہ انسانی اسمگلنگ ہے، جسے شادی کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے۔‘‘ امتیاز کا کہنا ہے کہ مساجد کی مدد سے ایسے قاضیوں کے لائسنسز کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جنہوں نے کم عمر لڑکیوں کے نکاح پڑھائے تھے۔ امتیاز کے مطابق ان مساجد کو یہ ہدایات بھی دی جا رہی ہیں کہ وہ خطبات میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف بات کریں۔ امتیاز کے مطابق مساجد کی جانب سے آگہی پھیلانا کافی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

عمر رسیدہ عرب مردوں کے ساتھ شادیوں کا سلسلہ حیدرآباد میں کافی پرانا ہے۔ ’شاہین ویمنز ریسورس اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ کی بانی جمیلہ نشاط کے مطابق قوانین کی سختی سے کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ لیکن ایسے کیسز منظر عام پر آ رہے ہیں جن میں لڑکیوں کو کام کے ویزے پر مشرق وسطیٰ لے جایا جاتا ہے اور وہاں جا کر انہیں شادی کے چنگل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔