1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، کپڑوں پر داغ لگنے پر تذلیل، لڑکی نے خود کشی کر لی

صائمہ حیدر
31 اگست 2017

بھارتی پولیس ان الزامات کی تحقیق کر رہی ہے، جن کے مطابق ایک بارہ سالہ لڑکی نے مخصوص ایام میں اپنے یونیفارم  پر خون کا داغ لگنے اور اس کے بعد اپنی ٹیچر کی جانب سے تذلیل کے باعث خود کشی کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2j9ut
Indien Mädchen auf Krankenhausbett liegend
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kanojia

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک بچی نے اپنے گھر سے قریب ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی ہے۔ حکام کے مطابق لڑکی نے ایک خط چھوڑا ہے، جس میں اُس نے اپنی استانی پر  اس کی تحقیر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جدید بھارت میں آج بھی خواتین کے ایام مخصوصہ پر بات کرنا باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔

بھارت کے مقامی میڈیا کے مطابق خود کشی کرنے والی لڑکی کو جب اُس کے ہم جماعت لڑکیوں نے بتایا کہ اُس کے کپڑوں پر ‌خون لگا ہے تو اُس نے ٹیچر سے مدد کے لیے کہا۔ تاہم اُس کی ٹیچر نے اسےکلاس کے سب بچوں کے سامنے خون کا داغ دکھانے کو کہا۔

 مقامی ذرائع ابلاغ نے لڑکی کی والدہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹیچر نے اس بات کا لحاظ بھی نہیں کیا کہ جماعت میں لڑکے بھی موجود تھے۔ والدہ کے مطابق خاتون ٹیچر نے بچی سے ایسی گفتگو کی جس سے اُس نے اپنی بہت تذلیل محسوس کی۔

بھارت میں حیض کے دوران خواتین کو ناپاک سمجھا جاتا ہے اور ان مخصوص ایام میں اُن سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں مندر میں جانے اور بعض طرح کا کھانا تیار کرنے اور اسے چکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ٹیچر کی مبینہ تذلیل سے رنجیدہ ہو کر اپنی جان لینے والی بارہ سالہ بچی کے والدین کو اس بات کا پتہ لڑکی کے ہم جماعتوں سے چلا۔ انہوں نے ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور لڑکی کی ٹیچر اور کلاس فیلوز سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ خود کشی کے اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ سن بلوغت میں داخل ہونے والی بچیوں کے اسکولوں میں داخلے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ہی نیپال کی پارلیمان نے اُس قدیم بھارتی روایت کو مجرمانہ قرار دیا تھا، جس میں خواتین کو اُن کے ایامِ مخصوصہ کے دوران گھروں سے باہر کچی جھونپڑیوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس رواج کو چوپاڈی کہا جاتا ہے۔