بھارت کی سستی کاریں اور ’غریب مزدوروں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں‘
22 جنوری 2016بھارت کے شمالی علاقے مانیسر کے وسیع صنعتی علاقے میں رانی پولیمر فیکڑی واقع ہے، جہاں پرساد سنگھ ایک پلاسٹک مولڈنگ مشین پر کام کرتا تھا۔ یہ فیکڑی ملک کے بڑے کار ساز اداروں کو پرزے فراہم کرتی ہے۔ پرساد سنگھ کا شمار بھی ان ہزاروں مزدورں میں ہوتا ہے، جو تین ڈالر یومیہ کی بنیاد پر بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں تاکہ بھارت کی سستی کاروں کی ڈیمانڈ پوری کی جا سکے۔
رانی پولیمر نامی یہ فیکڑی ہنڈا موٹرز اور یاماہا کو پرزے سپلائی کرتی ہے۔ اکاون سالہ پرساد سنگھ کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے مولڈنگ مشین چلانے کا بالکل بھی تجربہ نہیں تھا لیکن مجھے کہا گیا کہ ایک دن کے اندر اندر اسے چلانے کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ ناتجربہ کاری کی وجہ سے پرساد سنگھ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے ہاتھ کو دوبارہ اس کے بازو کے ساتھ جوڑ دیا تھا لیکن چودہ ماہ اور تین آپریشنز کے بعد بھی اس کا ہاتھ تقریباﹰ مفلوج ہے۔
رانی پولیمر کے پلانٹ منیجر آر کے رانا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے مزدوروں کو بغیر ٹریننگ کے مشین چلانے کا نہیں کہا۔ ان کے مطابق ان کی اس فیکڑی میں دو سو پچاس لوگ کام کرتے ہیں اور ان کے پلانٹ پر سال بھر میں ایک یا دو حادثے ہوئے ہوں گے۔
بھارت میں ماروتی سوزکی انڈیا اور ہنڈائی موٹرز جیسے کارساز ادارے انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں اور اندازوں کے مطابق سن دو ہزار بیس تک بھارت کاروں کے حوالے سے دنیا کی تیسری بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے جبکہ نئی کاروں کی قیمتیں تین لاکھ روپے فی کس سے بھی نیچے آ سکتی ہیں۔
سستے پرزوں کی برآمدات کے حوالے سے بھارت عالمی کار ساز اداروں جنرل موٹرز اور فورڈ موٹر کے لیے بھی مرکز بنتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں آٹو پارٹس کا شعبہ سن دو ہزار چھبیس تک دو سو ارب ڈالر کا کاروبار کرے گا جبکہ اس شعبے کی برآمدات گیارہ ارب سے بڑھ کر اسی ارب تک پہنچ جائیں گی۔
اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے چھوٹی فیکڑیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں، جہاں مزدورں کا استحصال عام سی بات ہے۔ نہ تو انہیں ورک کنٹریکٹ کی کوئی گارنٹی دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے لیے کسی مناسب ٹریننگ کا انتظام ہوتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس صنعتی علاقے میں سالانہ ایک ہزار سے زائد مزدور، جن میں سے زیادہ تر کی عمریں تیئیس برس سے بھی کم ہوتی ہیں، شدید زخمی ہوتے ہیں۔ یہاں مزدوروں سے ایک دن میں بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور ان کی اجرت بھی انتہائی کم ہوتی ہے۔
اسی طرح فرید آباد کی ایک دوسری فیکڑی میں کام کرنے والی تیس سالہ خاتون کمالہ کا کہنا تھا، ’’میری زندگی جہنم بن چکی ہے۔‘‘ اپنے کام کی وجہ سے دائمی کمر کے درد مبتلا یہ خاتوں دو بچوں کی ماں ہے اور اپنی روزانہ کی کمائی کا ایک حصہ اپنی دوا کی خریداری میں خرچ کر دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ میرے بچوں کو ان حالات سے نہیں گزرنا پڑے گا۔‘‘