1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی، درپردہ فوج کا ہاتھ؟

عاطف بلوچ27 دسمبر 2015

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی ایک اہم پیشرفت ہے تاہم یہ راہ فوج کی مداخلت کے باعث ہموار ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات وسط جنوری میں منعقد کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1HUAI
Pakistan Indischer Ministerpräsident Narendra Modi zu Besuch in Lahore
تصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پاکستان کا اچانک دورہ کرنا ایک خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں بعد کسی بھارتی وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہٴ پاکستان تھا۔ مودی کے اس اقدام کو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اہم قدم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب مودی کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا کہ آئندہ برس وسط جنوری میں دونوں ہمسایہ ممالک کے خارجہ امور کے سیکرٹریز تعطل شدہ امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ملاقات کریں گے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین اچانک اس طرح روابط کیوں کر استوار ہوئے، اس بارے میں مختلف آراء پیش کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس تناظر میں پاکستان کے نئے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل (ریٹائرڈ) نصیر خان جنجوعہ کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ملکی فوج کی طرف سے بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے رضا مندی اور جنرل نصیر خان جنجوعہ کی تعیناتی اس حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔

پاکستان کے ایک سفارت کار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس مرتبہ اسلام آباد حکومت کا بھارت کے ساتھ نیا رابطہ کچھ مختلف ہے، کیونکہ اس مرتبہ ملکی فوج بھی ساتھ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے قبل انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سول حکومت کے ساتھ ہیں۔

’جنرل راحیل بھی امن مذاکرات چاہتے ہیں‘

جنرل راحیل شریف اور پاکستان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر جنرل نصیر خان جنجوعہ کے قریبی تعلقات ہیں۔ جنرل جنجوعہ نے اکتوبر میں ہی سرتاج عزیز کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ جنرل جنجوعہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سول اور فوجی قیادت کے مابین ایک پُل کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں پاکستانی فوج سول حکومت کے مقابلے میں زیادہ تر اختیارات اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔

جنرل جنجوعہ کی تعیناتی کے بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا تھا، ’’جنرل جنجوعہ (سفارت کاری میں) بہت زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ اس عہدے کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک اہم اثاثہ ہیں۔‘‘ اپنا مخفی رکھنے کی شرط پر انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ ایک اضافی فائدہ ہے کہ وہ فوجی سربراہ کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔‘‘

بھارت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے اس نئے دور میں پاکستانی فوج کی مداخلت کا اہم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل جنجوعہ کو قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر تعینات کیا جانا اور بھارت کے ساتھ امن مذاکرات میں ان کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی فوجی کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی امن مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں نے رواں ماہ کے آغاز پر ہی بنکاک میں ایک ملاقات کی تھی، جس کے نتیجے میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ایک سفارت کار نے روئٹرز کو بتایا، ’’ماضی میں پاکستان کی طرف سے ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن اب تبدیلی نظر آ رہی ہے ... حقیقی فیصلہ سازی دراصل پردے کے پیچھے ہو رہی ہے۔‘‘

Pakistan General Naseer Janjua
پاکستان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر جنرل نصیر خان جنجوعہ اور جنرل راحیل شریف کے قریبی تعلقات ہیںتصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

امریکی دباؤ

متعدد پاکستانی اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے بھی جنرل راحیل شریف کو انتہائی مشکل سے قائل کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے گزشتہ ماہ ہی امریکا کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے اعلیٰ فوجی اور سول قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔

دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکا کا دورہ کیا تھا تو امریکی صدر باراک اوباما نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کی طرف اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ تاہم مودی کے ایک قریبی ساتھی کے بقول امریکا ہمیشہ ہی پاکستان اور بھارت کے مابین بہتر تعلقات کو خواہاں رہا ہے، اس لیے مودی پر اس تناظر میں کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید