1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بہتر زندگی کے لیے زندگی ہی داؤ پر؟

عاطف توقیر14 اپریل 2016

حاملہ خاتون سلام اریٹریا سے فرار ہوتے سمجھی تھی کہ وہ اپنے بچے کی بہتر زندگی کے لیے قدم اُٹھا رہی ہے۔ یوں دنیا میں آنے والے اس بچے کو معاشی بدحالی کا سامنا نہیں ہو گا، مگر اس فرار کا نتیجہ نکلا کیا؟

https://p.dw.com/p/1IVCO
Rettungsaktion von Ärzte ohne Grenzen Mittelmeer
تصویر: DW/K. Zurutuza

سوڈان پہنچی تو سلام اسمگلروں کے ہاتھ لگ گئی اور یہ خیال ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہو گیا۔ سلام (جس کا نام تبدیل کر کے پیش کیا جا رہا ہے) کو پیٹا گیا، جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا اور گولی بھی ماری گئی۔

اس خوف ناک تجربے کے باوجود، دو برس بعد سلام نے پھر اسی سفر کی ٹھانی اور اریٹریا، ایتھوپیا اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دیگر مہاجرین کے ہم راہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر یورپ پہنچنے کے لیے سفر اختیار کیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں واقع دفتر میں 32 سالہ سلام کا کہنا تھا، ’’ایک عورت کو جس جس طرح کے تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے، وہ سب مجھ سے روا رکھا گیا۔‘‘

اریٹریا اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے قریب تیس ہزار مہاجرین گزشتہ برس شمالی افریقہ سے بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی کے جزائر تک پہنچے۔ اس کے علاوہ کچھ تعداد صومالیہ اور سوڈان کے باشندوں کی بھی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان تمام افراد نے سوڈان سے ہی یہ سفر اختیار کیا۔

اپنے تین سالہ بچے کو اپنے بازوؤں میں لیے سلام کا کہنا ہے، ’’کوئی خطرہ ہے یا نہیں مگر ہر کوئی آ رہا ہے۔‘‘

Libanon, syrisches Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hamzeh

افریقہ سے یورپ پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین سوڈان کے دارالحکومت خرطوم پہنچتے ہیں، جہاں وہ اسمگلروں کو پیسے دیتے ہیں تاکہ کئی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرا کے انہیں لیبیا کے شمالی ساحلوں تک لایا جائے اور پھر یہاں سے بحیرہء روم کی بے رحم موجوں کا مقابلہ شکستہ کشتیوں کے ذریعے کرنے کی ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان شروع ہوتی ہے۔ گزشتہ برس بہتر زندگی کے حسین خواب لیے یہ سفر اختیار کرنے والے 38 سو افراد بحیرہء روم کی موجوں کے ہاتھوں خواب اور زندگی دونوں ہار بیٹھے۔

اپریل 2014ء میں سلام کو معلوم ہوا کہ وہ تین ماہ سے حاملہ ہیں، اس وقت وہ لازمی فوجی خدمات کے ساتویں برس میں تھیں۔ اریٹریا میں شہریوں کو فوجی سروس کرنا پڑتی ہے، جو غیر معینہ مدت کے لیے ہو سکتی ہے۔ سلام نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو ایک بہتر مستقبل دے گی اور فوراﹰ سوڈان پہنچے گی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنے بچے کی پرورش یورپ میں کرے۔ اس نے اسی ماہ بس پکڑی اور سوڈانی سرحد کے قریب پہنچی، جہاں سے اس نے مشرقی سوڈان تک کا بقیہ سفر پیدل کیا۔

کاسیلا شہر میں دو گاڑیوں پر سوار مسلح افراد نے اسے زبردستی اپنے ساتھ لے لیا۔ سلام کے مطابق گاڑیوں میں سوار یہ مسلح افراد مشرقی سوڈان کے قبائلی عرب تھے، جو انسانوں کی اسمگلنگ کا کام کرتے تھے۔ اسے بعد میں وہاں سے مصری علاقے سینائی تک لایا گیا، جہاں دو ہفتوں تک اس کے لیے سامانِ نظارہ لق دھق صحرا کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سلام کے مطابق سینائی تک پہنچنے کے سفر میں اسے بدترین تشدد اور تمام ممکنہ عقوبت کا سامنا رہا۔ مگر تشدد کی اس حد سے بہت آگے کی حدود ابھی باقی تھیں۔ اریٹریا سے تعلق رکھنے والی دیگر 22 لڑکیاں بھی سلام کے ساتھ تھی، جب انہیں ایک گینگ کو فروخت کر دیا گیا۔ سات ماہ تک ان یرغمالیوں کو جسمانی اور جنسی ہر طرح کے تشدد کا سامنا رہا۔ یورپ میں موجود سلام کے احباب سے رہائی کے لیے تیس ہزار ڈالر کا تاوان بھی طلب کیا گیا۔ ’’تاوان کی رقم کے حصول کے لیے ہم سے فون کالز کرائی جاتی تھیں اور فون کالز سے پہلے ہمیں شدید تشدد کا سامنا ہوتا تھا۔‘‘

سلام نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اپنے بچے کی پیدائش سے ایک ماہ قبل ستمبر 2012 میں اس نے اس قید سے فرار کی کوشش کی، مگر پکڑی گئی اور اس کی ٹانگ پر گولی مار دی گئی۔ یہ بتاتے ہوئے سلام نے اپنی شلوار کا پائنچہ کچھ اوپر کھینچا تو ایک گہرے مگر بھر چکے زخم کا واضح نشان سامنے تھا۔ زخم بھر جانے کے باوجود چلتے ہوئے سلام کے چہرے پر بیدار ہونے والی شکنیں اور چال میں بے ربطگی باقی مانندہ تکلیف کی عکاسی اب بھی کرتی ہے۔

یورپ میں موجود اریٹریا کے شہریوں نے 15 ہزار ڈالر کی رقم جمع کی اور یہ تاوان ادا کیا، تو اغوا کار سلام کو اسرائیلی سرحد کے قریب ایک مقام پر پھینک گئے، جہاں فوجیوں نے اسے حراست میں لیا اور اریٹریا کے حوالے کر دیا گیا۔ اریٹریا میں ملک سے غیرقانونی فرار ایک جرم ہے، جس کی پاداش میں اسے چھ ماہ تک جیل میں بند کر دیا گیا۔

اس بھیانک اور تکلیف دہ آپ بیتی کے باوجود سلام نے پھر سفر اختیار کیا اور سن 2014 میں سوڈان پہنچ گئی۔ اب وہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے پاس ہے۔ بہتر زندگی کے خواب ابھی سلام کی آنکھوں سے گئے نہیں، مگر یورپ تک کا فاصلہ طویل ہے اور اب تو سلام پیدل طویل سفر بھی طے نہیں کر سکتی۔ ٹانگ کی تکلیف کی وجہ سے بھی اور گود میں بچے کی وجہ سے بھی۔