1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بہت سے جرمن ڈیجیٹلائزیشن سے کیوں ڈر رہے ہیں؟

Rolf Wenkel / امجد علی7 جولائی 2016

آزاد معیشت نے جرمنی کو خوشحال اور محفوظ بنایا لیکن اب بہت سے جرمنوں کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی ڈیجیٹلائزیشن کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہاتھ سے چلا جائے گا۔ یہ خدشات آخر کہاں تک درست ہیں؟

https://p.dw.com/p/1JLI0
Belgien Liege Krankenhaus-Roboter namens Pepper
ماہرین کے خیال میں جرمنی میں بہت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ کل کو وہ بے روزگار ہو جائیں گے اوراُن کا کام کوئی روبوٹ سنبھال لے گاتصویر: Getty Images/AFP/J. Thys

مستقبل پر تحقیق کرنے والے امریکی ماہرین نے غالباً ایک مرتبہ کہا تھا: ایک وقت آئے گا کہ جب بہت زیادہ تنخواہ پانے والے مٹھی بھر افراد کمپیوٹروں سے یہ کہیں گے کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور بہت کم تنخواہ پانے والے باقی ماندہ تمام انسانوں کو وہ کچھ کرنا ہو گا، جو کمپیوٹر اُن سے کرنے کے لیے کہیں گے۔

خدشات کو جنم دینے والے اس طرح کے تصورات اکثر مبہم ہوتے ہیں۔ ایسے تصورات کا ہدف عالمگیریت، غیر ملکی، مہاجرین اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت وغیرہ ہوتے ہیں۔ یورپ بھر کے عوامیت پسند عناصر ان خدشات کو، جن میں ملازمت سے محروم ہو جانے کا خدشہ بھی شامل ہے، ہوا دیتے ہیں اور لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ آج یا کل اُن کی جگہ کوئی کمپیوٹر اُن کا کام کرنے لگے گا۔

درحقیقت یہ سب کچھ ہو جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ پھر تو آزاد معیشت کے ماڈل کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے تاہم بہت سے ماہرین اس خدشے کو غلط قرار دیتے ہیں کہ بڑھتی ڈیجیٹلائزیشن سے روزگار کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ مثلاً آجرین سے قریبی وابستگی رکھنے والے ’جرمن معیشت کے انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر مشائیل ہیوتھر یہ بتاتے تھکتے نہیں کہ 1991ء اور 2011ء کے درمیانی عرصے میں جرمنی میں کم کوالیفیکیشن رکھنے والے افراد کے لیے روزگار کے مواقع میں کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا، بجائے تکنیکی اور تعلیمی قابلیت والے افراد کے۔

بہت سے ماہرین کے خیال میں اُلٹا اس سوال پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے کہ اگر ڈیجیٹلائزیشن کا عمل جلد تکمیل کو نہ پہنچا تو روزگار کے کتنے مواقع ضائع ہو جائیں گے۔

ایک کاروباری ادارے کے ناظم الامور ہیلمٹ شوئنے برگر میونخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر ہر ہفتے ایک ایسی نئی کمپنی مارکیٹ میں لا رہے ہیں، جو ملازمتوں کے اوسطاً ایک ہزار نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ چینی یونیورسٹیوں کے ساتھ اشتراکِ عمل سے سات کمپنیاں چین میں قائم کی جا رہی ہیں جبکہ سات چینی کمپنیاں اکتوبر میں جرمنی میں آ کر کام شروع کر دیں گی۔

Deutschland Cebit 2016
ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں امریکی اور چینی نئی نئی کمپنیاں قائم کر رہے ہیں جبکہ جرمنوں میں یہ رجحان بہت کم ہےتصویر: Reuters/N. Treblin

ایک صدی پہلے سیمینز اور بوش کی طرح کے جرمنوں نے اپنی اپنی کمپنیوں کی بنیاد رکھی تھی لیکن آج کی نوجوان جرمن نسل میں یہ رجحان اتنا زیادہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی اور چینی نئی نئی کمپنیاں قائم کر رہے ہیں اور اس لیے کامیاب ہو رہے ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں کی ضروریات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ماہرین نئے کاروبار شروع کرنے کے خواہاں جرمن نوجوانوں کو امریکیوں کے ساتھ اشتراک عمل کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید