1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیجننگ اولمپکس میزانیہ

Afzal Hussain25 اگست 2008

بیجنگ اولمپکس کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کے چینی زبان کے شعبے کے سربراہ ماتھیاس فان ہائین کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/F4TY
مظاہرہ کی درخواست دینے آئی ایک خاتون کو ایک چینی پولیس اہلکار اورسادہ لباس میں موجود سیکوریٹی اہلکا ر دیکھ رہا ہےتصویر: AP

یہ ہر طرح سے بہترین کارکردگی کا حامل ایک مکمل شو تھا ۔ جو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹیIOC کے تقاضوں پر پورا اترا ۔ چین نے بیجننگ میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔ ایک آمرانہ طرز کی حکومت نے انسانوں اور وسائل کو ایک مرکزی پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے خوب استعمال کیا ۔ اس نے ہفتوں تک شہر کے اندر گاڑیوں کی آزادانہ آمد و رفت کو محدود بنائے رکھا ۔ کئی فیکٹریوں کو بند رکھا تاکہ شہر کی فضائی آلودگی کو کسی حد تک عالمی معیارات کے مطابق کنٹرول میں رکھا جا سکے۔ اسی طرح حکومت چین احتجاجی مظاہروں کو روکنے، سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو پابند کرنے میں کامیاب رہی۔

بیجنگ کے 29 ویں اولمپکس ممکنہ طور پر ان کھیلوں کی تاریخ میں ایک خاص حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ان کھیلوں کا چین میں انعقاد کر کے وہاں جمہوریت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کر رہی ہو ۔ بیجنگ حکومت نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ان کھیلوں کے ذریعے اپنے عوام کو بڑے پیمانے پر آزادانہ حقوق دے رہی ہو ۔ چین نے خود کو یوں پیش کیا جیسے وہ ایک ایسا جدید ملک ہو جس نے پوری دنیا کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہو۔ کھیلوں کے منتظمین نے یہ تائثر دیا جیسے ملک میں احتجاج پر کوئی پابندی نہ ہو۔

Olympia 2008 Olympiastadion in Peking bei Nacht
تصویر: picture-alliance /dpa

حالانکہ جس نے بھی اجازت طلب کرنے کی کوشش کی اسےحراست میں لے لیا گیا۔ افتتاحی تقریب کے موقع پر خوبصورت لڑکیوں کو سٹیج پر کھڑا کیا گیا۔ گانے کے دوران ان کے صرف ہونٹ ہل رہے تھے جب کہ آواز کہیں اور سے آ رہی تھی۔ خود کھلاڑیوں نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ اپنے زور بازو سے عالمی ریکارڈ قائم کر رہے ہوں۔ یہاں تک کہ جرمن گھڑسواروں نے اپنے گھوڑوں تک کوبھی قوت بخش ادویات کھلا رکھی تھیں۔ دنیا یہ تائثر دے رہی تھی جیسے پورے کرہٴارض پر اولمپکس امن کی فضا چھائی ہو۔ حالانکہ اسی دوران جارجیا اپنے علیحدگی پسند صوبے جنوبی اوسیشیا پر چڑھ دوڑا ۔

ان سب کے باوجود چینی حکومت کے لئے یہ کھیل بے حد کامیاب ثابت ہوئے۔ افتتاحی تقریب میں دنیا بھر کے سربراہوں نے شرکت کی۔ تمام مقابلے انتظامی لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ سونے کے تمغوں کی دوڑ میں میزبان ملک سب سے آگے رہا ۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے سوچا تھا کہ جس طرح 1988 کے Seoul مقابلوں نے جنوبی کوریا میں جمہوریت کے فروغ میں مدد دی تھی اس طرح موجودہ کھیل بھی چین میں جمہوریت کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہوں گے ۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔

بہرحال اتنا ضرور ہوا کہ مقابلوں کے دوران چین مین انٹرنیٹ سنسر کی پابندیاں نرم کر دی گئی تھیں۔ اب تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا کہ بیجننگ اولمپکس سے چین کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔

افضال حسین