1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروت اور دمشق اپنے روابط معمول پر لانے پر تیار

Kühntopp / Malik16 اگست 2008

دمشق میں لبنانی صدر میشیل سلیمان اور شامی صدر بشار الاسد نے ایک ملاقات میں اپنی مشترکہ سرحدکے تعین کی کوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔

https://p.dw.com/p/EyFX
لبنانی صدر میشیل سلیمان اور شامی صدر بشار الاسدتصویر: AP

شام اور لبنان اپنی مشترکہ سرحدکے تعین کی کوششیں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ دمشق میں لبنانی صدر میشیل سلیمان اور شامی صدر بشار الاسد کی ایک حالیہ ملاقات میں کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ دونوں ہمسایہ ملک کئی عشروں بعد، باہمی سفارتی تعلقات بحال کرنے پر بھی آمادہ ہو گئے ہیں۔ اسے مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایک تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے چھ عشرے سے بھی زائد عرصے بعد، شام اور لبنان نے آپس میں ایک دوسرے کو تسلیم کرنے، اورسفارتی تعلقات قائم کرنے پر جو اتفاق رائے کیا ہے، وہ ان دونوں ریاستوں کے لئے ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ یہ پیش رفت اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ سیاسی طور پر شام لبنان کو آج تک اپنے ہی ایک علیحدگی پسند صوبے کے طور پر دیکھتا رہا ہے۔ اب دونوں ملک ایک دوسرے کے ہاں اپنے سفارت خانے کھولیں گےجو کہ دو خود مختار ریاستوں کے مابین معمول کی بات ہے۔ یہ خبر گذشتہ کئی مہینوں کے دوران مشرق وسطیٰ کے خطے سے ملنے والی سب سے اچھی خبر ہے۔

لیکن سفیروں کے تبادلے جیسے آسان کام کے مقابلے میں زیادہ مشکل بات یہ ہو گی کہ شام اور لبنان کو اب اپنے وہ تمام مسائل حل کرنا ہوں گے جو عشروں سے ایسی کسی پیش رفت کے انتظار میں تھے۔ مثلاﹰ اُن بے شمار معاہدوں کا کیا بنے گا جوبیروت اور دمشق کے مابین عدم مساوات کی وجوہات کو تسلسل دیتے رہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اہم ہیں کہ شامی جیلوں میں قید لبنانی سیاسی قیدیوں کا کیا بنے گا اور مستقبل کی باہمی سرحدوں کو عبور کرنا کتنا آسان ہوگا؟

Symbolbild Treffen des syrischen mit dem libanesischen Präsidenten
تصویر: AP / DW

یہ پیش رفت شاید اس لئے بھی ممکن ہو سکی کہ لبنان میں عام انتخابات کے بعد کامیابی اپوزیشن کو ملی اورموجودہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت حزب اللہ بن گئی جو شام کی قریبی اتحادی ہے۔ بیروت میں ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی طاقت کی جنگ کا نتیجہ یہ کہ اب وہاں جو کل جماعتی حکومت بنی ہے، اُس میں حزب اللہ اور اُس کے پارلیمانی اتحادیوں کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ مطلب یہ کہ شامی صدر بشار الاسد کو اب یہ خدشہ نہیں ہے کہ لبنان میں موجودہ مغر نواز حکومت شام کے خلاف کامیابی سے کوئی محاذ بنا سکتی ہے۔

شام اور لبنان کے تعلقات کو سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل سے بھی بہت نقصان پہنچا، جس میں، بہت سے لبنانی شہریوں کی رائے میں، مبینہ طور پر شام کا ہاتھ تھا مگر اب تک ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ شام اور لبنان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اوردونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کے تعلقات بھی برابری کی سطح پر ہوں۔ اب شامی صدر کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ لبنان کے ساتھ واقعی برابری کی سطح پر عملی شراکت داری کے خواہش مند ہیں۔