1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیلجیئم کا سیاسی بحران

19 دسمبر 2007

یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر بیلجیئم کے دارلحکومت برسلز میں ہے مگریونین کے رکن ملک کے طور پرخود بیلجیئم کو کئی مہینوں سے ایک ایسے سیاسی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ اس کا اپنا وفاقی نظام ہے۔

https://p.dw.com/p/DYFt
تصویر: AP Graphics Bank/Wolf Broszies

بظاہر یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ یورپ میں بھی کوئی ملک ایسا ہے جہاں عام انتخابات کے چھ ماہ بعد تک بھی کوئی نئی حکومت قائم نہ ہوسکے اور نامزد وزیر اعظم دو مرتبہ نئی حکومت قائم کرنے کی دعوت ملنے کے بعد بھی معذرت کرتے ہوئے اپنی سیاسی ناکامی کا اعتراف کرلے۔

لیکن بیلجیئم میں یہ سب کچھ ہوااور جون کے شروع سے جاری سیاسی بحران کے دوران اب کم ازکم یہ اتفاق رائے تو ہو گیا ہے کہ 1999 سے بر سر اقتدار وزیر اعظم اور گذشتہ الیکشن کے بعد سے نگران سربراہ حکومت کے فرائض انجام دینے والے Guy Verhofstadt آئندہ بھی محدود عرصے کے لئے ایک ایسی عبوری انتظامیہ کے سربراہ رہیںگے جو ملک میںسیاسی بحران کے مستقل حل کی تلاش تک اقتدار میں رہے گی۔ تاہم ساتھ ہی Verhofstadt نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اگلے سال ایسٹر کے مسیحی تہوار تک اپنی ان ذمے داریوں سے دستبردار ہوجائیں گے۔

بیلجیئم کا سیاسی منظر نامہ دو مختلف طرح کی سیاسی جماعتوں سےعبارت ہے۔ اول تو وہ پارٹیاں جو Flanders کے اس امیر علاقے کے عوام کی نمائندگی کرتی ہیں جہاں ڈچ زبان سے بہت قریب سمجھی جانے والی Flemish زبان بولتی جاتی ہے۔ دوسری وہ جماعتیں جو فرانسیسی زبان بولنے والے Wallonia کے قدرے غریب علاقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ بیلجیئم میں رائج وفاقی طرز حکومت کے تحت کوئی بھی ملکی حکومت فلینڈرز اور والونیا، دونوں حصوں کی سیاسی جماعتوں پرمشتمل مخلوط انتظامیہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی کے ہمسایہ اس ملک میں Flemish اور فرانسیسی دونوں ہی سرکاری زبانیں ہیں مگرفلینڈرز اور والونیا کی سیاسی جماعتوں میں ملکی اداروں میں اصلاحات کے حوالے سے اس قدر اختلافات پائے جاتے ہیں کہ کوئی اتفاق رائے ، حتیٰ کہ کوئی پائیدارمخلوط حکومت بھی قائم ہوتی نظر نہیں آتی۔

فلینڈرز میں رہنے والے عوام کل ملکی آبادی کا تقریباً 60 فیصدبنتے ہیں اور وہ والونیا کے باشندوں سے قدرے امیر ہیں۔ ایسے میں Flemish پارٹیاں فلینڈرز کے علاقے کے لئے زیادہ اختیارات کے مطالبے کرتی ہیں اور ایک بڑا مسئلہ وفاقی اختیارات کی ملکی علاقوں کو منتقلی سے متعلق ہے۔ دوسری طرف ملک کے جنوب میں والونیا کی سیاسی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ فرانسیسی زبان بولنے والے ان کے علاقے کواس بحران کے نتیجے میں سیاسی اور معیشی دونوں طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بیلجیئم میں جاری سیاسی بحران ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ نئی عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق رائے سے یہ تعطل مزید طویل ہو گیا ہے۔ جمود کے اس تسلسل پر بھی اتفاق رائے اس طرح ہوا کہ 14 رکنی نئی کابینہ کے سربراہ اور عبوری وزیر اعظم Guy Verhofstadt ہوں گے جبکہ اول نائب وزیر اعظم فرانسیسی زبان بولنے والے ترقی پسندسیاستدان Didier Reynders ہوں گے اور دوسرے نائب وزیر اعظم Flemish زبان بولنے والے Yves Leterme جو پچھلے چھ ماہ کے دوران نئی مخلوط حکومت بنانے میں دو مرتبہ ناکام رہے۔