1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بین الاقوامی جوہری ایجنسی کے سربراہ تہران میں

4 اکتوبر 2009

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی ایرانی حکام سے بات چیت کے لئے دارالحکومت تہران پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/JxHi
بین الاقوامی جوہری ایجنسی کے سربراہ کی سابقہ دورے کے دوران ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات : فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

ایرانی ریڈیو کے مطابق اُن کے دورے کا بنیادی مقصد عالمی ادارے کے معائنہ کاروں کو قُم میں تعمیر کئے گئے نئے ایٹمی پلانٹ کے معائنے کے لئے نظام الاوقات کو حتمی شکل دینا ہے۔ ایران کی طرف سے IAEA کو اس ایٹمی پلانٹ کی موجودگی کے بارے میں حال ہی میں آگاہ کیا گیا ہے۔

جمعرات یکم اکتوبر کو اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے ساتھ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں ایران نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ عالمی جوہری ادارے کے معائنہ کاروں کو اس نو تعمیر شدہ جوہری پلانٹ کے معائنے کے لئے رسائی فراہم کرے گا۔ تاہم ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک سینیئر اہلکار نے غیرملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ البرادعی اپنے موجودہ دورے کے دوران کسی جوہری تنصیبات کا دورہ نہیں کریں گے۔

Sechsergruppe einigt sich mit Iran auf Urananreicherung im Ausland
پہلی اکتوبر کے جنیوا مذاکرات میں ایرانی نمائندے سعید جلیلیتصویر: AP

ایران کے نئے ایٹمی پلانٹ کے معائنے کےسلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی کے دورے کے حوالے سے IAEA کے سابق سربراہ ہانس بلِکس نے الجزیرہ ٹیلیویژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں جنیوا میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے بہت زیادہ کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ ان کا مطالبہ محض یہ تھا کہ ایٹمی تنصیبات کے فوری معائنے کی فوری اجازت دی جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران کی طرف سے قُم میں یورینیئم افزودہ کرنے کے اپنےنئے پلانٹ کے بارے میں آگاہ کرنے اور اس کی معائنے پر رضامندی کے بعد موجودہ پیش رفت حیران کن نہیں ہے۔ لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایران کو یورینیئم افزودہ کرنے سے روکا کیسے جاسکتا ہے۔

ادھر IAEA کے سربراہ کے دورہ ایران کے موقع پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ہفتے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ IAEA اپنےحالیہ تجزیے میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایران وہ تمام معلومات اور مہارت جمع کرچکا ہے جو بہت زیادہ افزودہ یورینیئم کو استعمال کرتے ہوئےجوہری ہتھیار تیار کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

Iran Atomgespräche in Genf Solana
پہلی اکتوبر کے جنیوا منعقدہ مذاکرات میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیفتصویر: AP

جمعرات یکم اکتوبر کو ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں 'فریز فار فریز' کی تجویز پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یعنی اگر ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو اسی مقام پر منجمد کردیتا ہے جہاں وہ اس وقت ہے تو اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر مزید پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ تاہم مذاکرات میں شامل ایرانی وفد کے سربراہ سعید جلیلی نے جمعہ کے روز ریاستی ٹیلیویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا میں اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

مغربی ذرائع کے مطابق ایران اس بات پر رضامند ہوگیا ہے کہ وہ یورینیم کو مزید افزودہ کرنے کے لئے روس یا فرانس بھیجے گا۔ جہاں سے افزودہ کردہ یورینیم تہران کےاس ایٹمی پلانٹ کے لئے فراہم کی جائے گی جو طبی مقاصد کے لئے کام کرتا ہے۔

ایران کی ایٹمی انرجی آرگنائزیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ البرادعی کا موجودہ دورہ جنیوا مذاکرات کے تناظر میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایران کے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی سے جاری تعاون کے سلسلے میں مزید بات چیت کے لئے ہے۔ بیان کےمطابق اس بات چیت میں تہران میں موجود ایٹمی ری ایکٹر کے لئے ایٹمی ایندھن کی فراہمی کا معاملہ بھی شامل ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : عابد حسین