1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بےسہارا شامی بچوں کو پناہ دیں گے: کیمرون

عابد حسین4 مئی 2016

برطانوی وزیراعظم نے ایسے شامی بچوں کو پناہ دینے کا کہا ہے، جو بغیر والدین کے بےسہارا ہیں۔ اِن بچوں کی برطانیہ آمد سے متعلق تفصیلات ڈیوڈ کیمرون نے ملکی پارلیمنٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتائیں۔

https://p.dw.com/p/1IiPd
تصویر: DW/R. Shirmohammadi

برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یا دارالعوام (House of Commons) میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک سوال کی وضاخت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے بچوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں جو بے سہارا اور بغیر والدین کے ہیں۔ مبصرین کے مطابق کیمرون حکومت کا یہ ایک طرح کا یُو ٹرن ہے کیونکہ اُسے اگلے ہفتے پارلیمنٹ میں شامی بچوں کی زبوں حالی پر ہونے والی بحث کے دوران اراکینِ پارلیمنٹ کی سخت مخالفت اور تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے۔

دارالعوام میں ڈیوڈ کیمرون نے یہ بھی کہا کہ مختلف شہروں کی مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطوں کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ ایسے شامی بچوں کی بحالی کے لیے اُن کی حکومت کو مزید کیا کچھ کرنا ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اِس کو اِس انداز میں لے کر آگے نہیں بڑھنا ہو گا کہ شام سے لوگ ایک خطرناک سفر پر اپنے بچوں کو روانہ کرنا شروع کر دیں۔ اپنے اِس بیان میں برطانوی وزیراعظم نے واضح نہیں کیا کہ وہ کس تعداد میں بچے اپنے ہاں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Griechenland Flüchtlingscamp in Idomeni
شام کے خونی و مسلح تنازعے نے ہزاروں بچوں کو بے سہار کر دیا ہےتصویر: Diego Cupolo/DW

لندن حکومت کے ایک اور وضاحتی بیان میں بتایا گیا کہ یونان، اٹلی اور فرانس سے بے سہارا بچوں کو حاصل کیا جائے گا۔ اِس بیان کے مطابق یورپی یونین کی مہاجرین و پناہ گزینوں کی ڈیل کے تحت بیس مارچ سے قبل رجسٹر کروائے گئے مہاجرین میں سے ایسے بچے لینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کوحالیہ ایام میں تمام ملکی سیاسی جماعتوں نے شامی بچوں کو سہارا دینے کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اِس تنقید میں اُن کی کنزرویٹو پارٹی بھی شامل ہے۔ برطانیہ یورپی یونین کی مہاجرین کی آباد کاری کے جامع منصوبے میں شریک نہیں ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی دارالامراء (House of Lords) میں اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے سینیئر رہنما ایلف ڈبز کو حالیہ دنوں میں سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اِس کی وجہ اُن کی جانب سے امیگریشن قوانین میں ترمیم کا بل ہے۔ اِس بل میں کہا گیا ہے کہ مہاجر کیمپوں سے کم از کم تین ہزار بچوں کو لا کر برطانیہ میں ملکی قوانین کے تحت پناہ دی جائے۔ الف ڈبز سن 1939 میں چھ برس کی عمر میں نازی جرمنی سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچے تھے۔ انہیں ’کنڈر ٹرانسپورٹ‘ نامی ایک پروگرام کے تحت برطانیہ لایا گیا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت ہز اروں یہودی بچوں کو پناہ دی گئی تھی۔