1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تائیوان کے صدر کی چینی مندوب سے ملاقات

6 نومبر 2008

جمعرات کے روز تائیوان کے صدر Ma Ying-jeou نے چینی مندوب سے اپنی ملاقات کو کامیاب قرار دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اتنی اعلٰی سطح پر رابطے گزشتہ چھ عشروں میں پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Fopz
چین اور تائیوان کے درمیان یہ اعلی سطحی رابطے چھ عشروں کے بعد نظر آ رہے ہیںتصویر: AP

تائیوان میں چینی مندوب کے اس دورے کے موقع پرہزاروں مظاہرین نے ان مزاکرات کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

تائیوان کے صدر ماژنگ ژُو کی چینی سفارت کار برائے تائیوان چین یُو لِن سے ملاقات میں چین اور تائیوان کے درمیان تجارت اور ذرائع آمد ورفت کے حوالے سے معاہدوں پر اتفاق بھی ہو گیا۔ دونوں جانب سے یہ گرمجوشی برسوں بعد نظر آئی ہےحالانکہچند سال پہلے تک یہی دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔

Chinas Top-Gesandter von Demonstranten in Taiwan im Hotel belagert
مظاہرین تائیوان کی خودمختاری کے حق میں تعرے لگا رہے ہیںتصویر: AP

تائیوان کے صدر نے چینی مندوب Chen Yunlin سے ملاقات کے بعد کہا :’’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں اطراف کوایک دوسرے کے قریب آنے کی کوششوں میں اب بھی بےشمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘

اس موقع پردونوں ملکوں کے درمیان ہوائی رابطوں میں اضافے، باہمی تجارتی اشیاء کی نقل و حمل اور ڈاک کے براہ راست نظام کے حوالے سے معاہدوں پر بھی اتفاق رائے ہو گیا۔

تائیوان کے ساتھ اپنے تنازعے میں بیجنگ کو سفارتی اعتبار سے 170 ممالک کی تائید حاصل ہے جب کہ تائیوان کو اب تک صرف 23 ممالک نے تسلیم کیا ہے۔ چین سے تنازعہ کی وجہ سے تائیوان کو اب تک اقوام متحدہ کی رکنیت بھی نہیں دی گئی۔ چین جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے بیجنگ کا یہ دعویٰ ہے کہ 23 ملین آبادی کا تائیوان، دراصل اس کا باغی صوبہ ہےاور چین ہر صورت میں تائیوان کا انتظام حاصل کرے گا چاہے اس کے لئے جنگ کا راستہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

اس موقع پرتائی پے میں صدارتی دفتر کے باہرہزاروں مظاہرین نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ربن باندھ رکھے تھےجن پر تحریر تھا:’تائیوان میراملک ہے‘۔ مظاہرین کا یہ مطالبہ تھا کہ چینی مندوب واپس چلے جائیں اور صدر ماژانگ ژو کوبیجنگ کے ساتھ مزاکرات نہیں کرنے چاہیں۔ ایسے میں کچھ مظاہرین نے حفاظتی باڑ توڑ کر صدارتی دفتر میں داخل ہونا چاہاتو پولیس کی مداخلت پر ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ کچھ مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر بوتلیں پھینکی گئیں جن کی وجہ سے چند پولیس اہلکار ذخمی بھی ہوگئے۔