1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلح گروہوں اور ٹرمپ کے احکامات کے درمیان پھنسے مہاجر

عاطف بلوچ، روئٹرز
9 مارچ 2017

جب ایک گروہ نے روسیو، ان کے شوہر اور دو بچوں کو قتل کی دھمکی دی، تو وہ ہنڈوراس سے فرار ہو کر امریکا کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوئیں، مگر امریکی صدر ٹرمپ نے ملک کے دروازے غیرقانونی تارکین وطن کے لیے بند کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YsFD
Grenze Mexiko USA Mutter und Kind
تصویر: Getty Images/J. Moore

اب یہ کنبہ میکسیکو میں پھنس کر رہ گیا ہے کیوں کہ ان افراد کو خطرہ ہے کہ اگر یہ غیرقانونی طور پر امریکا میں داخلے میں کامیاب ہو بھی گئے، تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر امریکی حکام غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں موجود لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے۔ یہ خان دان اپنے آبائی ملک سے ہجرت کر کے گزشتہ برس جون میں میکسیکو پہنچا تھا۔ اس گھرانے کو خوف ہے کہ ہنڈوراس کا گینگ اس کا پتا چلا لے گا اور پھر ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ روسیو کا کہنا ہے، ’’ہم نے اس صدر (ٹرمپ) کی وجہ سے اپنا ارادہ بدل لیا ہے کیوں کہ وہ لوگوں کو ملک بدر کر رہے ہیں۔‘‘

Mexiko Stadt - Mario Vazquez Santiago, Immigrant aus Guatemala
میکسیکو میں ہزاروں افراد پھنس کر رہ گئے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Images/M. Ugarte

25 سالہ اس خاتون اور اس کا خان دان میکسیکو میں ایک مہاجر مرکز میں مقیم ہے۔ اس خاتون نے اپنا پورا نام بتانے سے احتراز کرتے ہوئے کہا کہ اس نے تین مرتبہ پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی، تاکہ اس کے خان دان کی رسائی صحت اور تعلیم کے شعبے تک ہو سکے، مگر عدالت نے کم شواہد کی بنا پر ان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کو اب تک رد کیا ہے۔

ہنڈوراس، ایل سیلواڈور اور گوئٹے مالا میں کئی قاتل گروہ متحرک ہیں، جب کی وجہ سے لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑ کر شمال کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

حکام کے مطابق گزشتہ برس قریب نو ہزار افراد نے میکسیکو میں مہاجر کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درخواست جمع کرائی تھی، تاہم رواں برس یہ تعداد دو گنی ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

میکسیکو کے نائب وزیر برائے مہاجرت ہمبیرتو روکے ویلانووا کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے ملک بدریوں کے تناظر میں وہ اپنے ہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کی توقع کر رہے ہیں۔