1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کیا جائے‘

شمشیر حیدر5 اپریل 2016

اطالوی وزیر داخلہ انجیلینو الفانو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین شمالی افریقی ممالک سے بھی ترکی جیسا معاہدہ کرے تاکہ وہاں سے غیر قانونی طور پر اٹلی آنے والے تارکین وطن کو بھی واپس ان کے آبائی ملکوں میں بھیجا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1IPoJ
Frankreich Italien Flüchtlinge an der Grenze bei Ventimiglia
تصویر: Reuters/E. Gaillard

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق انجیلینو الفانو نے یہ بات برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اگرچہ تارکین وطن کی اکثریت ترکی سے یونان پہنچی تھی تاہم لیبیا اور شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی کافی زیادہ رہی تھی۔

پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانا پڑے گا، ترکی

جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی

ترکی سے یونان اور پھر وہاں سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے کے راستے بند ہونے کے بعد تارکین وطن کے اٹلی پہنچنے کے رجحان میں ایک مرتبہ پھر تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران اٹلی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اطالوی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایک مؤثر پالیسی اختیار کرتے ہوئے تارکین وطن کا اٹلی سے واپس بھیجا جانا نہایت ضروری ہے۔ الفانو کا کہنا تھا، ’’اگر پناہ گزینوں کی واپسی نہ ہوئی تو یُنکر کا ہجرت کے بارے میں ایجنڈا ناکام ہو جائے گا۔‘‘ الفانو کا اشارہ یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کی جانب تھا جنہوں نے یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

یونان میں پاکستانی تارکین وطن: موقف اور مجبوریوں کی وضاحت

الفانو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسے تارکین وطن جن کے ملک بدر کیے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، انہیں کیمپوں میں قید رکھنے میں روم حکومت کو دشواری پیش آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’آخر ہم کتنے تارکین وطن کو رکھ سکتے ہیں۔ ہر سال مزید ہزاروں تارکین وطن رکھنے پڑ جاتے ہیں۔ انہیں اگر منظم طریقے سے واپس نہ بھیجا گیا تو پھر ہمیں باقاعدہ جیلیں بنانا پڑیں گی، بصورت دیگر ظاہر ہے کہ سارا نظام منہدم ہو جائے گا۔‘‘

گزشتہ برس کے دوران قریب ایک لاکھ 54 ہزار تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچے تھے جب کہ پندرہ ہزار پناہ گزینوں کو اٹلی اور شمالی افریقی ممالک کے باہمی تعاون سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اطالوی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل صرف اسی صورت میں مزید مأثر ثابت ہو سکتا ہے جب یورپی یونین کی سطح پر شمالی افریقی ممالک سے بھی معاہدہ کیا جائے۔

اب تک اٹلی آنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افریقی ممالک سے ہے لیکن الفانو کا کہنا ہے کہ شامی مہاجرین کی آمد بھی شروع ہو سکتی ہے۔ الفانو کے مطابق، ’’اگر شامی مہاجرین ترکی میں نہ رہنا چاہیں اور یورپ آنے کی ٹھان لیں تو وہ بھی لیبیا کا رخ کر سکتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں ابھی تک ایسا نہیں ہو رہا لیکن ہم مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟