1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے آسٹریا کے مزید اقدامات

شمشیر حیدر30 مارچ 2016

آسٹریا کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ رواں برس مئی کے مہینے سے ایسے اقدامات متعارف کرائے جائیں گے جن کے ذریعے ملک میں نئے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مزید کمی لائی جا سکے گی۔

https://p.dw.com/p/1IMOw
Slowenisch-österreichische Grenze Kinder Flüchtlinge
تصویر: Reuters/L. Foeger

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ویانا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق آسٹریا آنے والے نئے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں مزید کمی کے اس منصوبے کا اطلاق اس سال مئی کے مہینے سے ہو جائے گا۔

جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی

یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار

اس سے قبل آسٹرین حکام نے جنوری میں فیصلہ کیا تھا کہ جرمنی کے ہمسایہ اس ملک میں اس سال مجموعی طور پر 37 ہزار پانچ سو تارکین وطن سیاسی پناہ کی درخواستیں دے سکیں گے۔

ویانا میں ملکی وزارت داخلہ کے مطابق اب تک آسٹرین حکام کو سیاسی پناہ کی 14 ہزار درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ پچھلے برس کے دوران 90 ہزار سے زائد افراد نے آسٹریا میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے دوران زیادہ تر تارکین وطن آسٹریا سے ہوتے ہوئے ہی جرمنی پہنچے تھے۔ جرمنی میں ایک ملین سے زائد افراد نے پناہ کی درخواستیں دی تھیں لیکن اگر مجموعی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آسٹریا میں موجود پناہ کے متلاشی تارکین وطن کا تناسب بھی اتنا ہی بنتا ہے جتنا کہ جرمنی میں۔

گزشتہ مہینوں کے دوران آسٹریا نے مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر مہاجرین کے لیے سرحدیں بند کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے اسے یورپی یونین کے دیگر ممالک کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ویانا میں حکام کا ابھی تک کہنا ہے کہ یہ اقدامات عوامی مفادات اور ملکی سکیورٹی کے پیش نظر ناگزیر تھے۔

نیا قانونی پیکیج، مہاجرین کو اپنے اہل خانہ بلانا آسان نہ ہو گا

آسٹریا کی وزیر داخلہ یوہانا مِکل لائٹنر کا کہنا ہے کہ مستقبل میں صرف ایسے مہاجرین کو ہی آسٹریا میں پناہ دی جائے گی جنہیں پناہ نہ دیے جانے کی صورت میں جان کا خطرہ درپیش ہو گا یا پھر جن کے اہل خانہ پہلے ہی سے آسٹریا میں پناہ گزین ہوں گے۔

مِکل لائٹنر کا اس بارے میں مزید کہنا تھا، ’’ہم کسی تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست تب تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ایسا کرنا یورپی یونین کے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 کے مطابق لازمی نہ ہو۔‘‘

اسی دوران آسٹرین وزیر دفاع ہنس پیٹر ڈوسکوسِیل کے مطابق تارکین وطن مستقبل میں صرف آسٹریا کی سرحدی چوکیوں پر ہی اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ درخواستوں پر فیصلہ ایک گھنٹے کے اندر اندر کر دیا جائے گا اور جن لوگوں کو پناہ کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا، انہیں فوری طور پر واپس بھیج دیا جائے گا۔

ویانا حکومت کی جانب سے ان نئے اقدامات کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب کہ آج ہی حکومت کے قائم کردہ ایک آزاد کمیشن نے ملک میں تارکین وطن کی حد مقرر کرنے کے جنوری میں متعارف کرائے گئے قوانین کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔

خاتون وزیر داخلہ مِکل لائٹنر نے اس بارے میں کہا، ’’کمیشن نے اپنی قانونی رائے میں کہا ہے کہ حکومت ملکی آئین اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پناہ گزینوں کی تعداد کم کرنے کے لیے کئی طرح کے اقدامات کر سکتی ہے۔‘‘

اس قانونی رائے سے قطع نظر آسٹرین پارلیمان نے ابھی تک ان مجوزہ اقدامات کو کوئی قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا۔ ویانا حکومت کو امید ہے کہ ملکی پارلیمان اس نئے قانونی ڈھانچے کی مئی کے مہینے تک منظوری دے دے گی۔

نیا قانون: جرمن سیکھو، معاشرے میں ضم ہو جاؤ، ورنہ واپس جاؤ

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘