1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبت کا قدیمی طریقہ علاج

2 اپریل 2008

بلند وبالا پہاڑوں کے دامن میں واقع تبت روحانیت کے مرکز کے علاوہدانش و حکمت کے اسرار کا امین ہے۔وہاں کا قدیمی طریقہ علاج بھی ایک اپنی دنیا رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/Di8E
تبت کے مرکزی شہر لہاسہ کے عجائب گھر میں موجود ایک پرانی تصویر، جس میں معالجین نے انسانی جسم کی اندرونی ساخت ظاہر ہے۔
تبت کے مرکزی شہر لہاسہ کے عجائب گھر میں موجود ایک پرانی تصویر، جس میں معالجین نے انسانی جسم کی اندرونی ساخت ظاہر ہے۔تصویر: Administrative Bureau of Cultural Relics, Tibet

تبت میں روائیتی اعتقادات میں بیان کیا جاتا ہے کہ زمین پر پیدا ہونےوالی سب سے پرانی بیماری
بد ہضمی اور پہلی دوا،اُبلا ہوا پانی تھا۔تبت کے Tangشاہی دور میں دو شہزادوں نے آٹھویں صدی عیسوی میں قدیمی چینیHanطریقہ علاج کو تبتی علاقے میں متعارف کروایا۔

چین میں ہان میڈیسن کووہی درجہ حاصل ہے جو بھارت ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان میں میٹریا میڈیکا کو حاصل ہے۔بعد میں اُن شہزادوں کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے بھارت اور چین کے وید یا ڈاکٹر باقاعدگی سے تبت کے دوروں پر جانے لگے۔تبتی روائیت میں بیان ہونےوالے مشہور قدیمی طبیب Yuton Yonten کو ایک چینی ڈاکٹر کا شاگرد بیان کیا جاتا ہے۔

تبت میں بدھ مت کے فروغ کے بعد، بہت سارے ہندوستانی راہب اپنے ساتھ ویدک ادویات تبت لے کر پہنچے ۔ ویدک فلسفے کے مطابق انسان ہوا، آگ اور مٹی کی عمارت ہے اور اس کی صحت کے لیئے تین زمین اجزا ضروری ہیں۔انسانی بدن میں سات قسم کی سرگرمیاںہوتی ہیں اور اُن سے پیدا ہونے والے فاضل اجزاءکے اخراج کے تین طریقے ہیں۔شاید اسی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ ویدک ادویات کے بنیادی اجزاءہڑڑ، بھیڑے اور آملہ کا استعمال بھی اِنہی راہبوں کی کاوش ہے۔

تبت میں انسانوں کو موت کے بعد بلندی پر دفن کرنے کی پرانی رسم کی وجہ سے نعشوں کی صفائی ستھرائی کی جاتی تھی اور اِس کے باعث تبتی قدیم معالجین علم تشریح اُلجزا یاAnatomyمیںبے مثال مہارت رکھتے تھے۔یہ سلسلہ چلتا رہا اور اِس کو نئی جہت ستر ہویں صدی میںGya Tshoنامی ایک معالج نے دی۔اُس نے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جو میڈیسن اور علم فلکیات کے باہمی رابطے پر تھی۔اُس کی نواسی ادویات پر کی گئی تحقیق آج بھی تبت میں موجود ہے۔

ویدک میڈیسن کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے تبتی معالجین کے قدیمی نظریات پاکستان اور بھارت کے دیسی معالجین جیسا ہے۔مثلاً اگر بخار ہو گیا ہے تو اس کی یقینا وجہ سرد یا گرم ہونا ہے۔کچھ کچھ اُن کا انداز ہومیو ڈاکٹروں کی طرح بھی لگتا ہے کہ کون سی خوراک کس رنگ میں پسند ہے۔نبض دیکھنے کا اندز بھی کم و بیش پاکستانی اور بھارتی اطباجیسا ہے۔ یعنی شہادت کی انگلی سے پھیپھڑوں کی عمل کا پتہ چلتا ہے۔بڑی یا وسطی انگلی معدے کی سرگرمیوں کی آگہی دیتی ہے اور انگوٹھی والی انگلی سے گردوں کی معلُومات لی جاتی ہے۔دل کی دھڑکن کا ایک ہی کلیہ تھا کہ ایک سانس کے دوران میں مریض کی دھڑکن پانچ سے چھ مرتبہ سنائی دینی چاہیئے۔

تبتی ادویات کی تیاری میں وہاں کے ڈاکڑ سرخ اورسفید موتیوں کے ساتھ ساتھ مرجان یا مونگے کے باقاعدہ استعمال کے علاوہ چاندی اور خاص طور سے سونے کے پانی کا استعمال کیا جاتا تھا۔اب ادویات سازی کا یہ انداز تقریباً متروک ہو گیا ہے۔تبت میں Gya Tsho کے نظریات کی روشنی میں ایک ڈاکٹر کو پہلے چار سال جم کر میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنا ہو تی تھی اور بعد میں پانچ سال وہ مسلسل علم الفلکیات کی تدریس کو مکمل کرنا لازمی تھا۔نو سال کی مکمل تعلیم کے بعد وہ ایک سند یافتہ ڈاکٹر تصور کیا جاتا تھا۔تبتی معالجین کا خیال تھا کہ ایک مکمل ڈاکٹر کو مریض کی تشخیص کے وقت ستاروں کے علم سے آگہی انتہائی ضروری ہے۔

شاید قدیمی مسلمان اطبا اور ہندو ویدک بھی علم البروج اور علم الفلکیات میں مہارت رکھا کرتے تھے۔
تبت کی سرزمین روحانی اسرار کی آماجگاہ کے علاوہ دانش و حکمت کا سرچشمہ بھی قرار دی جاتی ہے۔ وہاں کی جڑی بوٹیاں اور قدیمی طریقہ علاج انتہائی معتبر تصور کیا جاتا ہے۔