1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تجرباتی نیوکلیئر فیوژن پاور پلانٹ کا منصوبہ

رپورٹ: افسر اعوان، ادارت: شامل شمس28 جون 2009

سورج اور دیگر ستاروں سےکروڑوں اربوں سالوں سے اتنی بڑی مقدار میں توانائی کے اخراج کے باوجود ان پر توانائی ختم نہیں ہوئی۔ سائنسدانوں کے مطابق ان ستاروں پر اتنی بڑی مقدار میں توانائی کی پیدوار نیوکلیئر فیوژن کا نتیجہ ہے۔

https://p.dw.com/p/IcXE
نیوکلیئر فیوژن کا عمل دنیا میں اب تک صرف چند ہی لیبارٹریوں میں انجام دیا جاسکا ہے اور وہ بھی بہت محدود پیمانے پرتصویر: AP

2006 میں دنیا کے سات ممالک نے 2018 تک ایک تجرباتی نیوکلیئر فیوژن پاور پلانٹ کی تیاری کا منصوبہ تیار کیا تھا، مگرحال ہی میں اعلان کیا گیا ہے کہ اس مجوزہ پلانٹ میں سال 2018 تک صرف ابتدائی نوعیت کے تجربات ہی ممکن ہوسکیں گے۔

نیوکلیئر فیوژن کے عمل میں دو چھوٹے ایٹموں کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر مخصوص عمل کے ذریعے اس ملایا جاتا ہے کہ وہ ایک بڑے ایٹم میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور اس عمل کے دوران بہت بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق نیوکلیئر فیوژن کے عمل میں نہ تو تابکاری پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی تابکار مواد باقی بچتا ہے، جبکہ اسکے برعکس نیوکلئیر فشن کے ذریعے توانائی کے حصول کی صورت میں باقی بچ جانے والے ایٹمی مادے سے بہت لمبے عرصے تک تابکاری خارج ہوتی رہتی ہے، جو انسانی صحت اور ماحول کے لئے شدید نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لئے باقی بچ جانے والے مادے کومحفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کے نیوکلیئر فشن میں مخصوص عمل کے ذریعے ایک بڑے ایٹم کو توڑ کر چھوٹے ایٹموں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس عمل کے دوران بھی بڑی مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔

نیوکلیئر فیوژن کا عمل دنیا میں اب تک صرف چند ہی لیبارٹریوں میں انجام دیا جاسکا ہے اور وہ بھی بہت محدود پیمانے پر۔ اس پر نہ صرف بہت بڑی لاگت آتی ہے بلکہ بہت زیادہ جدید لیبارٹری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر 2006 میں دنیا کے چند بڑے ممالک نے مل کر نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے توانائی کے حصول کے لئے ایک تجرباتی پاور پلانٹ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمنٹل ری ایکٹر (International Thermonuclear Experimental Reactor ITR) بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ تجرباتی پاور پلانٹ فرانسیسی شہر مارسیلی کے قریب کاڈاراش میں تعمیر کیا جانا ہے۔ 2006 میں طے کئے گئے ٹائم ٹیبل کے مطابق ITR نے 2018 میں باقاعدہ کام کا آغاز کرنا تھا مگرحال ہی میں فرانسیسی اٹامک انرجی کمیشن (CEA) نے اعلان کیا ہے کہ سال 2018 میں مجوزہ پاورپلانٹ میں صرف ابتدائی نوعیت کے تجربات شروع کئے جاسکیں گے اور وہ بھی چھوٹے پیمانے پر۔ CEA کی ایک اعلی اہلکار کیتھرین سیسارسکی Catherine Cesarsky کے مطابق اس تجرباتی پاورپلانٹ میں تجربات کا آغاز تو شیڈول کے مطابق 2018 میں ہوجائے گا، لیکن پہلے سے طے شدہ منصوبے کے برعکس ایک ایسی مشین میں جوابھی نامکمل ہوگی۔ سیسارسکی کا کہنا تھا کہ تیکنیکی طور پر یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ مجوزہ تجرباتی فیوزن پاور پلانٹ میں پہلے محدود پیمانے پر ہی تجربات کئے جائیں، کیونکہ اس طرح کسی مسئلے یا فنی خرابی کا قبل از وقت پتہ چل سکے گا۔

ITR کے ترجمان کے مطابق اس مجوزہ تجرباتی پاورپلانٹ میں ابتدائی طور پر ہائیڈروجن کے ایٹموں کو استعمال کیا جائے گا، جبکہ بڑی مقدار میں توانائی کے حصول کا ذریعہ بننے والی ٹریٹیئم اور ڈیوٹریئم کا استعمال 2026 ء سے قبل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق ہائیڈروجن اٹیم کے ان آئسوٹوپسIsotopes کا استعمال 2021ء سے شروع ہوجانا تھا۔

International Thermonuclear Experimental Reactor کے منصوبے میں سات حصہ دار ہیں ، جن میں یورپی یونین، چین، بھارت، جنوبی کوریا، جاپان، روس اور امریکہ شامل ہیں جبکہ قازقستان کے آٹھویں حصے دار کے طور پر شامل ہونے کے امکانات ہیں۔ اس منصوبے پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 10 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ جن میں سے پانچ ارب ڈالرITR کی تعمیر جبکہ بقیہ پانچ ارب ڈالر 20 سال تک اس کو چلانے کی مد میں خرچ ہونے تھے مگر تازہ ترین اندازوں کے مطابق اس منصوبے پر اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہوگی۔ برطانوی سائنس جرنل کے گزشتہ ماہ کے شمارے کے مطابق ITR کی تعمیری لاگت دگنی یعنی 10 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ اسی طرح اب اسے چلانے کے لئے اٹھنے والے اخراجات بھی یقیناﹰ بڑھ جائیں گے۔