1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی آمریت کی راہ پر گامزن نہیں‘

شمشیر حیدر
19 فروری 2017

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ایسے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ترکی میں صدارتی نظام نافذ کرنے سے ملک میں مطلق العنانیت اور آمریت کو فروغ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دوسرے جمہوری ممالک میں بھی صدارتی نظام ہے۔

https://p.dw.com/p/2XrMn
Deutschland Türkei Oberhausen Auftritt Ministerpräsident Binali Yildirim
تصویر: Reuters/W. Rattay

یلدرم مغربی جرمنی کے قصبے اوبرن ہاؤسن میں ترک شہریوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ ترکی کے بعد ترکوں کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں ہے جہاں چودہ لاکھ سے زائد ترک شہری کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔

ترک سیاسی نظام میں سلطنت عثمانیہ کے بعد کی سب سے بڑی تبدیلی

اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم نے کہا، ’’لوگ کہتے ہیں ایک فرد پر مبنی نظام لایا جا رہا ہے۔ کیا جرمنی میں دو چانسلر ہیں؟ صدارتی طریقہ کار میں ظاہر ہے ایک ہی صدر ہوتا ہے۔ ایک جہاز کے دو ملاح نہیں ہو سکتے۔‘‘

ترک صدر ایردوآن آئینی اصلاحات کر کے ملک میں پارلیمانی نظام ختم صدارتی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ترک حکام نے اس ضمن میں 16 اپریل کو ایک عوامی ریفرنڈم کرانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان اصلاحات کے بعد صدر ایردوآن کی سیاسی طاقت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن نے ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور بعد ازاں سیاسی حریفوں کی بڑے پیمانے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی نظام کے بعد ترک صدر پارلیمان کے سامنے جواب دہ نہیں رہیں گے اور صدر کا عہدہ لامحدود اختیارات کا حامل ہو گا جس کے باعث ملک میں عدلیہ کی خود مختاری بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باعث ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔

ریفرنڈم کے دوران عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے جاری مہم کے دوران ’جو ترکی سے محبت رکھتے ہیں ریفرنڈم میں ہاں کے حق میں ووٹ ڈالیں‘ کا نعرہ استعمال کیا جا رہا ہے جس پر جرمنی میں تنقید کی جا رہی ہے۔ جرمنی میں سماجی انضمام کی نگران خاتون کمشنر آئیدان اُوزوس بھی تُرک نژاد ہیں۔ اُوزوس کا کہنا تھا کہ ترکی میں مجوزہ آئینی اصلاحات ’’ملکی ترقی اور ملک میں قانون کی بالادستی کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘

ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے مطابق جرمنی میں منعقد ہونے والے جلسے میں دس ہزار سے زائد ترکوں نے شرکت کی۔ جرمن پولیس کے مطابق ترک وزیراعظم کے خطاب کی مخالفت میں بھی مظاہرہ کیا گیا جس میں تین سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔

کروڑ پتی کاروباری سے مہاجر بننے تک، ایک ترک شہری کی کہانی