1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: اقتدار پر صدر ایردوآن کی گرفت مضبوط تر ہوتی ہوئی

علی کیفی
10 دسمبر 2016

ترکی کی حکمران جماعت پارلیمان میں ایک ایسا بِل پیش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ ناقدین کو خدشہ ہے کہ ان اختیارات سے ملک شخصی حکم رانی کی طرف چلا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2U4Hp
Türkei Rede Präsident Recep Tayyip Erdogan in Ankara
ترک صدر رجب طیب ایردوآن انقرہ میں خطاب کر رہے ہیں (فائل فوٹو)تصویر: picture-alliance/AP Photo/Presidential Press Service/K. Ozer

صدر ایردوآن 2014ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد سے اس آئینی ترمیم کے لیے، جس کے نتیجے میں وہ ممکنہ طور پر 2029ء تک بھی برسرِاقتدار رہ سکتے ہیں، کوششیں کر رہے ہیں۔ ہفتہ دَس دسمبر کو پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی اس ترمیم کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس سے ملک کا سیاسی نظام زیادہ مؤثر ہو جائے گا جب کہ ناقدین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس ترمیم کی منظوری کی صورت میں ترکی میں ایک ہی شخص کی حکم رانی کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔

اس ترمیم کے ذریعے ترکی میں بھی امریکا اور فرانس ہی کی طرح کا صدارتی نظام رائج کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایردوآن کے مخالفین کا الزام ہے کہ خاص طور پر اس سال جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے وہ زیادہ سے زیادہ مطلق العنان بننے کی کوشش میں ہیں۔

اس آئینی ترمیم کا مسودہ ایک ایسے وقت میں پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے جس میں ایک جانب مغربی دُنیا کے ساتھ ایردوآن کے تعلقات خراب جا رہے ہیں اور دوسری طرف ملکی کرنسی لیرا بھی زبردست دباؤ کا شکار ہو چکی ہے۔

اس ترمیمی مسودے کو پارلیمان میں پیش کرنے سے پہلے حکم ران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP) اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کے درمیان کئی مہینے تک صلاح و مشورہ ہوتا رہا ہے۔ ایم اپچ پی کو پارلیمان میں چوتھی بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل ہے تاہم پارلیمان میں تین سو سولہ نشستوں کی حامل اے کے پی کو وہ تین سو تیس ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس جماعت کی لازمی حمایت درکار ہے جو ملک میں اس مسئلے پر ریفرنڈم منعقد کروانے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ریفرنڈم آئندہ برس مارچ، اپریل یا مئی میں منعقد ہو سکتا ہے۔

Türkei Demo gegen den Ausnahmezustand in Istanbul
ترکی کے شہر استنبول میں ملک میں نافذ ہنگامی حالت کے خلاف احتجاج کا ایک منظر، نئے سیاسی نظام میں ممکن ہے، ایسے احتجاج کی گنجائش ہی نہ ہوتصویر: DW/K. Akyol

حکم ران جماعت یہ کہتے ہوئے اس ترمیم کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس سے ملک اُس طرح کی بغاوتوں سے بچ جائے گا، جیسی کہ ایردوآن کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اس سال پندرہ جولائی کو بپا کی گئی۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 1960ء کے عشرے سے لے کر اب تک فوج، جو خود  کو ملک کی سیکولر حیثیت کا ضامن سمجھتی ہے، تین جمہوری حکومتوں کو گھر بھیج چکی ہے۔

اس تاریخی پس منظر کے باوجود ترکی کی بڑی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) اور کُرد نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) ترکی میں عشروں سے چلے آ رہے پارلیمانی نظام کو تبدیل کرنے کی سختی کے ساتھ مخالفت کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ایچ ڈی پی کے سرکردہ رہنما اور نئے مجوزہ سیاسی نظام کے سخت ناقد صلاح الدین دیمرتاس اسی جماعت کے نو دیگر اراکینِ پارلیمان کے ہمراہ آج کل اس الزام کے تحت حراست میں ہیں کہ اُن کے ایک دہشت گرد گروپ کے ساتھ روابط ہیں۔