1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی معذرت کرے: پوٹن، معذرت نہیں کریں گے: ایردوآن

عاطف توقیر26 نومبر 2015

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ ترک حکومت کی جانب سے روسی فوجی طیارہ مار گرانے پر اب تک معذرت نہیں کی گئی ہے۔ادھر ترک صدر ایردوآن کہا ہے کہ ترکی روس سے معذرت نہیں کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1HD82
Aserbaidschan Treffen Putin und Erdogan in Baku
تصویر: Reuters/RIA Novosti/Kremlin/A. Druzhinin

منگل 24 نومبر کو ترک ایئر فورس نے شامی سرحد کے قریب ایک روسی لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔ ترکی کا مؤقف ہے کہ اس طیارے نے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود اس خلاف ورزی سے باز نہ آیا، جس کے بعد یہ اقدام کیا گیا۔ تاہم روس ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ روسی طیارہ شامی حدود کے اندر ہی تھا اور اس سے ترک سلامتی کو کسی طرح کے خطرات لاحق نہیں تھے۔

آج جمعرات 26 نومبر کو روسی میڈیا پر سامنے آنے والے ایک بیان میں صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا، ’’ہم نے اب تک ترکی کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت سے معذرت نہیں سنی، نہ ہی ان کی جانب سے کوئی ایسی تجویز سامنے آئی ہے، جس میں ہونے والے نقصان کے ازالے یا اس جرم میں ملوث افراد کو سزا دینے کا وعدہ کیا گیا ہو۔‘‘

پوٹن نے مزید کہا، ’’اس سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ترک قیادت جان بوجھ کر روس اور ترکی کے درمیان تعلقات کو ایک بند گلی کی جانب لے جا رہی ہے، یہ یقیناﹰ افسوس ناک بات ہے۔‘‘

Russland Kampfjet Suchoi Su-24
ترکی نے روسی بمبار طیارہ مار گرایا تھاتصویر: Reuters/S. Zhumatov

انہوں نے ایک مرتبہ پھر اصرار کیا کہ یہ واقعہ ’’منطقی انداز اور بین الاقوامی قانون کے منافی تھا۔ طیارہ شامی علاقے میں گرایا گیا۔‘‘

دریں اثناء روسی وزیراعظم دیمتری میدیودیف نے اس واقعے کو ’حملہ‘ اور ’روس کے خلاف جارحیت‘ قرار دیا ہے۔

اس سے قبل روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف کہہ چکے ہیں کہ طیارہ گرانے کا واقعہ ’اشتعال انگیزی کی ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی۔‘

اس واقعے میں جہاز سے کودنے والے دو پائلٹوں میں سے ایک زمین پر موجود باغیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا، جب کہ دوسرا باحفاظت زمین پر پہنچا اور اسے روسی اور شامی خصوصی فورسز نے ریسکیو کر لیا۔

روس نے رواں برس 30 ستمبر کو شام میں اپنی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور اس کے جنگی طیارے شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی مدد کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ترکی شامی باغیوں کا حامی ہے اور واضح انداز میں بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ترکی کی جانب سے روس کو متعدد مرتبہ متنبہ کیا جا چکا ہے کہ اس کی فضائی حدود کی خلاف وزری نہ کی جائے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکی میں منعقدہ جی 20 کانفرنس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ترکی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں سے تیل خرید رہا ہے۔ جمعرات کو ترک صدر ایردوآن نے ان روسی الزامات کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی پر الزام عائد کرنے والے ’جھوٹے‘ ہیں۔

ایردوآن نے مزید کہا، ’’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ داعش کے پاس ہتھیار اور پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، تو اس کے لیے سب سے پہلے آپ اسد حکومت اور شامی حکومت کے حامی ممالک کی جانب دیکھیں۔‘‘

دریں اثناء جمعرات کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے طیارہ مار گرانے پر روس کی جانب سے معافی کے مطالبے کو رد کر دیا۔ ایردوآن نے کہا کہ ترکی اس سلسلے میں روس سے معافی نہیں مانگے گا۔ انہوں کا کہنا تھا کہ روس کو ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر معافی مانگنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ترک پائلٹ جنہوں نے روسی طیارہ مار گرایا، صرف حکم بجا لا رہے تھے اور ذمہ داری نبھا رہے تھے۔